جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مضاربت میں شریک دو افراد زکاۃ کیسے ادا کرینگے؟

205055

تاریخ اشاعت : 29-01-2016

مشاہدات : 6388

سوال

سوال: میری اور ایک دوسرے آدمی کی مشترکہ دکان ہے، سرمایہ اس کا ہے اور میں دکان چلاتا ہوں، پہلی بات جب سالانہ حساب کتاب ہوا تو وہ ایک سال تین ماہ بعد ہوا تھا، اسی حساب سے مطلوبہ مقدار سے زیادہ زکاۃ بھی ادا کر دی گئی ، اسی طرح دوسری بار بھی ایک سال تین ماہ بعد حساب کتاب کیا ، تو اب اڑھائی سال گزر چکے ہیں اس کی زکاۃ کا حساب کیسے لگائیں، اور ہمیں اس دکان سے منافع بھی ملا ہے، تو اب زکاۃ کا حساب کیسے لگایا جائے گا؟ یہ بات واضح رہے کہ میں نے گزشتہ سال حساب کتاب کے بعد مطلوبہ مقدار سے زیادہ زکاۃ ادا کی تھی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو شخص نصاب کا مالک ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو فوری زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، اور کسی شرعی عذر کے بغیر تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔

پہلے اس بارے میں سوال نمبر: (87518) میں گفتگو گزر چکی ہے۔

چنانچہ سال مکمل ہونے کے تین ماہ بعد تاخیر کیساتھ زکاۃ ادا کرنا جائز نہیں ہے، لہذا آپ اپنے سالانہ حساب کتاب کیلئے ایک سال کی میعاد رکھیں، تا کہ اسی وقت زکاۃ کی ادائیگی بھی ہو سکے، اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر آپ سالانہ حساب کتاب سے پہلے  ہی سال مکمل ہونے پر زکاۃ ادا کر دیں، اور اس کیلئے ظن غالب  کے مطابق زکاۃ ادا کر دیں جس سے آپکو یہ تسلی ہو کہ ہم نے زکاۃ ادا کر دی ہے، اور جب سالانہ حساب کتاب کا وقت آئے تو اپنی ادا شدہ زکاۃ چیک کر لیں، اگر پوری ادا ہو چکی ہو تو ٹھیک ہے بصورتِ دیگر آپ  بقیہ زکاۃ بھی ادا کر دیں۔

اور اب  آپ کو اڑھائی سال گزر چکے ہیں  اور  دو بار زکاۃ بھی ادا ہو چکی ہے، چنانچہ آئندہ یعنی تیسرے سال کی  زکاۃ کی ادائیگی کیلئے درج ذیل تفصیل پر عمل کریں: چھ ماہ کے بعد زکاۃ ادا کریں، اور اس سال سالانہ حساب کتاب چھ ماہ کے بعد ہی کر لیں، تا کہ آئندہ ہر سال کیلئے آپ  کو آسانی ہو جائے، یا پھر سالانہ حساب کتاب سے پہلے ہی جب آپ کو تین سال مکمل ہوں اسی وقت زکاۃ ادا کر دیں اور گزشتہ طریقہ کار کے مطابق عمل کریں۔

دوم:

آپ نے پہلے اور دوسرے سال کی زکاۃ  ادا کر دی ہے اور اس طرح آپ زکاۃ کی ادائیگی سے بری الذمہ ہو گئے ہیں، تاہم جو اضافی رقم آپ نے ادا کی ہے وہ نفل صدقہ ہے کل قیامت کے دن آپ کو اس کا مکمل ثواب ملے گا۔

لیکن اگر اس اضافی رقم کے بارے میں آپ نے یہ نیت کی تھی کہ یہ آئندہ سال  کی زکاۃ کا پیشگی حصہ ہے ؛ تو آپ اس اضافی رقم کو آئندہ سال کی زکاۃ میں شامل کر سکتے ہیں۔

اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (50801) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

تیسرے سال اور آئندہ آنے والے سالوں کی زکاۃ کے بارے میں مزید وضاحت یہ ہے کہ سرمایہ کار [یعنی آپ کے شریک ساتھی]کے رأس المال  اور حاصل شدہ نفع دونوں کو جمع کر کے پورے مال کی زکاۃ ادا کی جائے گی۔

جبکہ اس شراکت میں محنت کرنے والے [یعنی آپ] کی ملکیت میں نفع اسی وقت آئے گا جب حساب کے بعد اسے تقسیم کر دیا جائے، چنانچہ جب آپ اپنا حصہ وصول کر لیں تو اسی دن سے زکاۃ کا سال  شروع ہو جائے گا، بشرطیکہ وہ نصاب کے برابر ہو یا دیگر نقدی وغیرہ ملانے سے اس کا نصاب پورا ہوتا ہو، چنانچہ سال پورا ہونے پر اس میں سے زکاۃ ادا کریگا، تاہم اگر سال پورا ہونے سے پہلے ضروریات میں خرچ ہو جائے تو اس پر زکاۃ نہیں ہے۔

یہاں فرق یہ ہے کہ رأس المال کا مالک نفع ملتے ہی   رأس المال سمیت پورے مال کی زکاۃ ادا کریگا، جبکہ  مضاربت میں محنت کرنے والا سال گزرنے کے بعد  زکاۃ ادا کریگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ رأس المال کا نفع رأس المال  کے تابع ہے، جبکہ مضاربت میں محنت کرنے والے نے اس شراکت میں سرمایہ لگایا ہی نہیں ہے کہ اس کا نفع بھی اس کے سرمائے کے تابع ہو۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[مثال کے طور پر]اگر کوئی کسی شخص کو 1000 [روپے] مضاربت کیلئے دے، کہ منافع نصف نصف  ہوگا، تو سال گزرنے کے بعد یہ 3000  ہوگئے  تو رأس المال کا مالک  2000 کی زکاۃ ادا کریگا؛ کیونکہ تجارت کے نفع  کیلئے زکاۃ  کا وہی سال ہوگا جو رأس المال کا ہے۔۔۔

جبکہ محنت کرنے والا شخص جب تک اپنا حصہ وصول نہ کر لے تو وہ سال گزرنے سے پہلے زکاۃ ادا نہیں کریگا[چنانچہ نفع وصول کر کے سال شمار کرنا شروع کریگا]۔
امام احمد سے صالح اور ابن منصور کی روایت کے مطابق صراحت موجود ہے کہ :  جب دونوں حساب کتاب کر کے منافع تقسیم کر لیں تو مضاربت میں محنت کرنے والا شخص نفع وصول کرنے کے دن سے زکاۃ کا سال شمار کرنا شروع کریگا، کیونکہ اب اسے اپنے مال کے بارے میں معلوم ہو گیا ہے کہ اس کا اس میں کتنا حصہ ہے، ویسے بھی اگر اس کے بعد مضاربت میں خسارہ ہو جائے تو وہ صرف رأس المال کے مالک کے کندھوں پر ہی ہوگا۔
"جب نفع تقسیم کر لیں" کا مطلب یہ ہے کہ نفع کی تقسیم عام طور پر حساب کتاب کے بعد ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نفع تقسیم ہونے کے بعد اگر خسارہ ہو جائے تو یہ سارا خسارہ رأس المال کے مالک پر ہوگا، کیونکہ نقصان نفع تقسیم ہونے کے بعد ہوا ہے" انتہی
"المغنی": (4/160-160)

[اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ: حساب کتاب کے بعد نفع تقسیم ہو جائے، اور مضاربت میں محنت کرنے والا اپنا حصہ لے جائے ، پھر کہیں خسارہ ہو تو یہ خسارہ صرف رأس المال  کے مالک پر ہوگا، جبکہ محنت کش اس خسارے میں سے کسی بھی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوگا؛ کیونکہ یہ خسارہ نفع تقسیم ہونے کے بعد پیدا ہوا ہے۔]

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مضاربت میں محنت کش  کے نفع پر [اسی وقت]زکاۃ نہیں  ہوگی؛ کیونکہ اس منافع کی وجہ سے رأس المال محفوظ ہوا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھیں کہ : آپ نے کسی شخص کو ایک لاکھ  رقم تجارت کیلئے دی ، تو اسے 10000 نفع ہوا، مالک کو اس نفع میں سے آدھا ملے گا اور محنت کش کو  5000 ملے گے، اب محنت کش کے 5000 میں زکاۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ  اس 5000 کے تجارت میں تلف ہونے کا عین خدشہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اگر تجارت میں خسارہ ہو جاتا تو محنت کش کو کچھ بھی نہ ملتا، تاہم رأس المال کے مالک  کو ملنے والے نفع میں فوری زکاۃ ہوگی، کیونکہ یہ نفع رأس المال کے تابع ہے، اس لئے سرمایہ کار کے سرمائے اور نفع دونوں میں زکاۃ ہوگی" انتہی
" الشرح الممتع " (6/17)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب