الحمد للہ.
نماز كا وضوء كرنے كے بعد اپنے اہل و عيال اور دوست و احباب كے ساتھ مباح اور جائز كلام كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور وضوء كى بنا پر كوئى معين كلام كرنا حرام نہيں ہو جاتى، بلكہ وضوء سے قبل جو چيز حرام تھى وہ وضوء كے بعد بھى حرام ہے، مثلا جھوٹ، غيبت اور چغلى، اور سب و شتم وغيرہ كرنا.
ليكن جب وضوء گناہوں كا كفارہ بنتا ہے، اور وضوء كے ساتھ گناہ جھڑتے ہيں تو پھر وضوء كے بعد انسان كو حرام كام ترك كر دينے چاہيں، تا كہ وہ اپنے پروردگار كے سامنے پاك صاف ہو كر كھڑا ہو.
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب مسلمان يا مومن بندہ وضوء كرتا ہوا اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس كے چہرے سے پانى كے ساتھ يا پانى كے آخرى قطرے كے ساتھ وہ سب گناہ نكل جاتے جن كى طرف اس نے اپنى آنكھوں كے ساتھ ديكھا تھا، اور جب اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو پانى يا پانى كے آخرى قطرہ كے ساتھ اس كے وہ سارے گناہ نكل جاتے ہيں جو اس كے ہاتھ نے پكڑے تھے، اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس كے چلنے سے ہونے والے سارے گناہ پانى يا پانى كے آخرى قطرے سے نكل جاتے ہيں، حتى كہ وہ گناہوں سے باكل پاك صاف ہو جاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 244 ).
اور امام مسلم نے ہى عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى اچھى طرح وضوء كيا اس كے جسم سے سارے گناہ نكل جاتے ہيں، حتى كہ اس كے ناخنوں كے نيچے سے بھى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 245 ).
واللہ اعلم .