الحمد للہ.
مسجد اقصی قبلہ اول اور ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفرکر کے جانا جائز ہے ، کہا جاتا ہےکہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ۔
جیسا کہ سنن نسائ ( 693 )میں حدیث موجود ہے اوراسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےصحیح نسائ میں صحیح کہا ہے :
اورایک قول یہ ہے کہ پہلے سے موجود تھی توسلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی تھی اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائ گئ ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تومیں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : مسجد اقصی ، تومیں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجاۓ نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3366 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 520 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کورات کے ایک حصہ میں بیت المقدس کی سیر کرائ گئ اوراس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے انبیاء علیہم السلام کونماز پڑھائ ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے معراج کا واقعہ ذکرکرتے ہوۓ فرمایا ہے :
پاک ہے وہ اللہ تعالی اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گيا جس آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے الاسراء ( 1 ) ۔
اورقبہ صخرہ توخلیفہ عبدالملک بن مروان نے ( 72 ھ ) میں بنوایا تھا ۔
فلسطینی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ :
مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدس پر ہوتاتھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبہ صخری جسے عبدالملک بن مروان نے 72 ھجھری الموافق 691 میں بنوایا تھا جوکہ اسلامی آثارمیں شامل ہوتا ہے ، اورآج یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے ۔ دیکھیں : الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 4 / 203 ) ۔
اوراسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ :
مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور قدس شہرکے جنوب مشرقی جانب یہ قبہ بنایا گیا ہے جو کہ ایک وسیع وعریض اور مستطیل شکل کا صحن جس کی مساحت شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اورمشرق سے مغرب 300 میٹربنتی ہے ، اوریہ پرنےالقدس شہر سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ ہے ۔ ا ھـ یہ عبارت کچھ کمی بیشی کے ساتھ پیش کی گئ ہے ، دیکھیں الموسوعۃ الفلسطینیۃ ( 3 / 23 ) ۔
تووہ مسجد جوکہ نمازکی جگہ ہے وہ قبہ صخری نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویرمنتشر ہونے کی بنا پراکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہيں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئ بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ واقع ہے اورقبہ صحن کے وسط میں ایک اونچي جگہ پر ۔
اوریہ بات تواوپربیان کی چکی ہے کہ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پرہو تا تھا ۔
اس کی تائيد شیخ الاسلام ابن تیمۃ رحمہ اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ :
مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیلمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نےاس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔
اس لیے کہ جب عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تواس وقت اونچی جگہ ( قبہ صخرہ ) پرزیادہ گندگي تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ یھودی اس طرف نماز پڑھتے تھے تواس کے مقابلہ میں عیسائ اس جگہ کی توھین کرتے ، تو عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اس گندگی کوصاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اورکعب رضي اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے :
تیرے خیال میں ہمیں مسلمانوں کے لیے مسجد کہاں بنانی چاہیے ؟ ، توکعب رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا : کہ اس اونچی جگہ کے پیچھے ، توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے ، اویھودی ماں کے بیٹے ! تجھ میں یھودیت کی ملاوٹ ہے ، بلکہ میں تواس کے آگے بناؤں گا اس لیے کہ ہماری مساجد آگے ہوتی ہیں ۔ دیکھیں : الرسائل الکبری لشیخ الاسلام ( 2 / 61 ) ۔
تویہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہوکرنماز پڑھتے تو اسی جگہ پرپڑھتے تھے جسے عمررضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیرکیا تھا ، اوراس اونچی جگہ ( گنبدوالی ) کے پاس نہ توعمراور نہ ہی کسی اورصحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اورنہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پرقبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمراورعثمان ، علی ، اورمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اورمروان کے دور حکومت میں یہ جگہ بالکل کھلی تھی ۔
اورنہ ہی صحابہ کرام اورتابعین عظام میں کسی نے اس قبہ کی تعظيم کی اس لیے کہ یہ قبلہ منسوخ ہوچکا ہے ، اس کی تعظیم توصرف یھودی اورعیسائ کرتے ہیں ، اس کا معنی یہ نہیں کہ ہم مسلمان اس کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ ہم اسے وہ تعظیم دیتے ہيں جوہمارے دین میں ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے جس طرح کہ ہر مسجد کوتعظیم دی ہے ۔
اورعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جوکعب رضي اللہ تعالی عنہ کی بات کا انکارکیا اورانہیں اے یھودی ماں کے بیٹے کہا تو یہ اس لیے تھا کہ کعب رضي اللہ تعالی عنہ اسلام سے قبل یھودی علماء میں سے تھے جب انہوں نے عمررضی اللہ تعالی عنہ کواس اونچی جگہ کے پیچھے مسجد بنانے کا مشورہ دیا تواس میں اس چٹان کی تعظيم ہوتی کہ مسلمان نماز میں اس کی طرف منہ کرکے نمازادا کریں ، اور اس چٹان کی تعظیم تو یھودیوں کے دین میں ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین اسلام میں ۔
مسلمانوں کا قبے کو ہی مسجد اقصی سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تصویروں میں اسے اچھی عمارت وھئیت میں دیکھا ہے ، تویہ اس غلطی کوختم نہیں کرسکتا جوکہ مسجد اقصی اورقبہ کی تميزميں پیدا ہوچکی ہے ۔
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یھودی سازش کا نتیجہ ہو تا کہ ان کے اس قبہ کی تعظیم کی جانی لگے اور وہ اس کی جانب ہی متوجہ ہوجائيں ، یا پھر یہ کہ اس قبے کا اظہار اس لیے کیا جارہا ہے تا کہ مسجد اقصی کوختم کرکے ھیکل سلیمانی قائم ہوسکے ۔
اوریہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مسلمان یہ گمان کرنے لگیں کہ یہ قبہ ضخرہ ہی مسجداقصی ہیں ، اوراگر یھودی اصلی مسجداقصی کومنھدم کرنے لگيں تومسلمانوں کے شوروغوغا کرنے انہیں یہ کہا جاسکے کہ یہ دیکھیں مسجد اقصی تو اپنی حالت پرقائم ہے اور اس کی دلیل میں وہ تصویرں پیش کریں تواس طرح وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائيں گے اورمسلمانوں کے غیظ وغضب اورتنقید سے بھی بچ جائيں گے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ مسلمانوں کی عزت وبلندی کوواپس لاۓ ، خنزیروں اوربندروں کے بھائیوں سے مسجد اقصی کوپاک صاف کردے ، اللہ تعالی اپنے امرپرغالب ہے لیکن یہ بات اکثر لوگوں کے علم میں نہیں ۔
واللہ تعالی اعلم .