الحمد للہ.
ماہرین اطفال یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے سال میں بچہ کسی بھی چیز کے اچانک گرنے، یا تیز آواز کے آنے سے ، یا اسی طرح کی کسی بھی چیز سے ڈر سکتا ہے، بچہ چھٹے مہینے سے اجنبی لوگوں کو دیکھ کر ڈرنے لگ جاتا ہے، جبکہ تیسرے سال میں کافی چیزوں سے ڈرتا ہے، مثلاً: جانور، گاڑی، گہری کھائی، اور پانی وغیرہ ۔
عمومی طور پر بچیاں بچوں سے زیادہ ڈرتی ہیں، جبکہ ڈرنے کی مقدار کا تعلق بچے کے ذہن میں پیدا ہونے والے تصور پر منحصر ہوتا ہے، تو جس بچے کے تخیلات جس قدر زیادہ ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ ڈرے گا۔
بچے کے زیادہ ڈرنے کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
-بچوں کو بھوت، پریت، پولیس، اندھیرے، جن، اور نامانوس چیزوں سے ڈرانا۔
-والدین کا بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ لاڈ اور پیار، ان کے بارے میں بہت زیادہ حساس واقع ہونا۔
-بچے کو تنہائی میں رکھنا، اور گھر سے باہر نہ نکلنے دینا، اور اسے اکیلے رکھنا۔
-جنوں اور بھوت والے قصے کہانیاں سنانا وغیرہ
-بچہ مشاہدے کے ذریعے اپنے والدین سے خوف قبول کر سکتا ہے، اس طرح سے حاصل کیا گیا خوف بڑی دیر تک بچے میں قائم رہ سکتا ہے، اسی لیے والدین کا اچھا رول ماڈل بچے میں ڈر اور خوف پیدا نہ ہونے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں جس رول ماڈل کی ضرورت ہے وہ تمام حالات میں -ان کی نوعیت سے قطع نظر -ایک جرات مندانہ رول ماڈل ہے، چنانچہ مانوس جانوروں سے نہ ڈرا جائے، حق پر چلنے والے لوگوں سے بھی خوفزدہ نہ ہوں چاہے وہ کتنے ہی بڑے عہدے اور منصب کے مالک ہوں، اسی طرح بلا وجہ خوفزدہ بھی نہ ہوں۔
بچے میں خوفزدگی کے رجحانات کا علاج کرنے کے لیے، والدین کئی معاملات کو مد نظر رکھیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
– اسے بچپن سے ہی اللہ تعالی پر ایمان لانے، اللہ تعالی ہی کی عبادت کرنے، اور ہر ممکنہ اور خوف زدہ کرنے والی چیز کے متعلق اللہ تعالی سے مدد طلب کرنے کی عادت ڈالیں۔
– بچے کو کام کرنے کی آزادی دیں، ان کے کندھوں پر ذمہ داری ڈالیں، اور بچوں کو ان کی جسمانی نشو و نما کے مطابق کام کرنے دیں۔
– بچے کو خوفزدہ نہ کریں ، خاص طور پر جب بچہ روئے تو اسے بھوتوں، کتوں، چوروں، جنوں وغیرہ سے مت ڈرائیں، کیونکہ یہ بات اہل ایمان میں پائی جانے والی عمومی مثبت خوبیوں میں آتی ہے: (قوی مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے) صحیح مسلم حدیث نمبر 2664
– سمجھداری کے وقت سے ہی اسے دوسروں کے ساتھ میل جول رکھنے کی اجازت دیں، اور اسے ان سے ملنے اور ان کو جاننے کا موقع فراہم کریں تاکہ وہ اپنی روح اور ضمیر کی گہرائیوں میں محسوس کرے کہ وہ جن لوگوں سے بھی ملتا ہے وہ سب اس سے پیار، محبت اور احترام والا تعلق رکھتے ہیں۔
ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بچے کو اس چیز کو جاننے کا موقع دیا جائے جو اسے خوفزدہ کرتی ہے۔ اگر وہ اندھیرے سے ڈرتا ہے تو لائٹ آف کر کے اور پھر آن کر کے اس سے کھیلنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر بچہ پانی سے ڈرتا ہے تو اسے چھوٹے پیالے میں تھوڑا سا پانی لے کر کھیلنے کا موقع دینے میں کوئی حرج نہیں ، اسی دیگر چیزوں کے ساتھ بھی کیا جائے جن سے بچہ خوف زدہ ہوتا ہے۔
– اسے سلف صالحین کے بہادرانہ واقعات سنائیں، اور اسے خواتین صحابہ کے اخلاق کو اپنانے کی ترغیب دیں ، تاکہ وہ جرات اور بہادری کی علامت بن جائے۔
اگر بچی کا خوف بے چینی کی وجہ سے ہے، تو اس کی وجہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے عوامل ہیں، جن کے بارے میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم نے حل پیش کیا ہے، ان عوامل میں سے چند درج ذیل ہیں:
– بچے کو وہ کام تفویض کرنا جو وہ انجام نہ دے سکے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بوڑھے کے حقوق نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں۔) اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے، حدیث نمبر: 4943۔ ترمذی، حدیث نمبر:1921، اور صحیح الجامع ، حدیث نمبر: 5444
– بچے کی کامیابی پر بچے کی بھر پور حوصلہ افزائی نہ کرنا، حالانکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سعد کے علاوہ کسی کے لیے یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ: ’’میرے والد اور والدہ تجھ پر قربان ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم غالبا احد کے دن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے: ’’تیر کا نشانہ لو، میرے والد اور والدہ تجھ پر قربان ہوں‘‘ ۔ اس حدیث کو امام بخاری: ( 6184) اور مسلم : (2411) نے روایت کیا ہے۔ اس میں والدین کے لیے ہدایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کسی بھی سطح کی کارکردگی پر حوصلہ افزائی کریں، اور انہیں مزید محنت کرنے کی ترغیب دیں۔
– حد سے زیادہ جسمانی سزا، اور سخت رویہ اپنانا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ : (جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہے) اسے مسلم نے (2292 ) روایت کیا ہے۔
– تنگ حالات زندگی بھی بسا اوقات والدین کو اپنے بچوں پر غصہ نکالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جیسے میاں بیوی کے درمیان باہمی مفاہمت کا فقدان ، یا بچوں کی والدہ کے کسی بھی کام پر خوش نہ ہونا، یا اپنی ملازمت پر اطمینان نہ ہونا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (مضبوط آدمی وہ نہیں ہے جو کشتی کرے، بلکہ مضبوط آدمی وہ ہے وہ جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے) اسے بخاری: (6116) نے روایت کیا ہے۔
ہم آخر میں یہ بھی واضح کرنا چاہیں گے کہ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ بچے کو بالکل بھی نہ ڈرائیں اور نہ ہی دھمکائیں، کیونکہ کچھ معاملات میں خوف کا پایا جانا بھی نہایت ناگزیر ہوتا ہے؛ کیونکہ بچے میں ایک حد تک خوف کا پیدا ہونا بھی بچے کی بقا کا ضامن ہوتا ہے، اس لیے بچے میں اللہ کا خوف پیدا کریں کہ بچہ لوگوں کو تکلیف دینے سے ڈرے، اور اسی طرح بچہ جرائم کے ارتکاب سے ڈرے وغیرہ وغیرہ، تاہم یہ ضروری ہے کہ بچے کے ذہن میں پیدا ہونے والا خوف فطری نوعیت کا ہو اور معتدل حد تک ہو، اس میں کسی قسم کا مبالغہ اور کوتاہی نہ پائی جاتی ہو۔