الحمد للہ.
جو شخص يہ كہتا ہے كہ عورت مسجد ميں نماز عيد كے ليے نہيں جائيگى، اس كى بات صحيح نہيں.
بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو عورتوں كو نماز عيد كے ليے جانے كا حكم ديا ہے.
ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ہميں عيد كے روز نكلنے كا حكم ديا گيا، حتى كہ كنوارى لڑكى بھى اپنے كمرہ سے نكل كر جائے، اور حائضہ عورتيں بھى جائيں گى، اور وہ لوگوں كے پيچھے رہينگى، اور ان كى تكبير كے ساتھ تكبيريں اور ان كى دعاء كے ساتھ دعا كرينگى اس سے وہ اس روز كى بركت اور پاكيزگى حاصل كرينگى"
صصحيح بخارى الجمعۃ حديث نمبر ( 918 ).
ليكن اگر عورت حائضہ ہے تو وہ نماز والى جگہ سے عليحدہ رہے اور وہاں داخل نہيں ہو گى، بلكہ مسلمانوں كى دعاء اور خير ميں شامل ہو گى، اور عيدگاہ سے باہر خطبہ سنے گى.
اور عورت كواس روز زيب و زينت سے اجتناب كرنا ہو گا، اور وہ اپنے پرانے لباس ميں جائے ( وہ لباس جس ميں كسى بھى قسم كى زينت و زيبائش نہ ہو ) تا كہ وہ مردوں كو فتنہ ميں نہ ڈالے، اور نہ ہى خوشبو اور عطر استعمال كر كے جائيگى.
عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ... اگر عورت جانے پر اصرار كرے تو خاوند كو اسے اجازت دے كہ وہ باپرد ہو كر پرانے لباس ميں بغير زيب و زينت كيے جائے، اور اگر وہ انكار كرے كہ وہ اس طرح نہيں جائيگى بلكہ زيبائش كرے گى تو خاوند كو روكنے كا حق حاصل ہے.
واللہ اعلم .