الحمد للہ.
اول:
شمالی منجمد قطب کے قریب واقع ممالک کی دو صورتیں ہیں:
1-
ایسا ملک جہاں 24 گھنٹے کے اندر اندر دن اور رات آتے ہیں، تو ایسے
ممالک کے لوگوں کیلئے کسی دوسرے ملک کے اوقات پر اعتماد کرنا درست نہیں ہے، بلکہ
ایسے ممالک میں دن کے پانچ مشہور اوقات میں نمازیں ادا کرنا ضروری ہے، کیونکہ
فرمانِ باری تعالی عام ہے:
(
أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ
وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً
)
ترجمہ: سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات چھا جانے تک نماز قائم کریں، اور فجر کے وقت قرآن
کی تلاوت کریں، بیشک فجر کے وقت قرآن کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں [الإسراء
:78 ]
اسی طرح : (
إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً
)
ترجمہ: بیشک مؤمنوں پر نماز وقت مقررہ پر ہی فرض ہے۔[النساء:103]
جبکہ آیات و احادیث میں دن کے لمبے یا چھوٹے ہونے کی کوئی تفریق نہیں ہے ، چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی علامات کے مطابق نمازوں کے اوقات شروع اور ختم ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، تو ان کے مطابق وقتِ مقررہ پر ہی نماز ادا کی جائے گی۔
اسی طرح مکمل ماہِ رمضان میں روزہ رکھنا واجب ہے، چاہے دن لمبا ہو
یا چھوٹا، اسی طرح رات کے وقت کھانا پینا اور جماع کرنا حلال ہوگا، چاہے رات لمبی
ہو یا چھوٹی؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ
الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ
إِلَى اللَّيْلِ
)
سے آخر تک
(
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ
)
ترجمہ: فجر کے وقت سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ممتاز ہو جائے تو
اس وقت تک کھاتے پیتے رہو، پھر رات تک روزہ مکمل کرو۔۔۔ تمہارے لیے روزے کی رات
اپنی بیویوں کیساتھ شب باشی کرنا حلال قرار دیا گیا ہے۔[البقرة
:187]
2- جو شخص ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں 24 گھنٹوں میں دن اور رات نہیں آتے، مثال کے طور پر ایسا ملک جہاں دو دن، ہفتہ، یا مہینہ اور اسے سے بھی زیادہ دن یا رات ہی رہتی ہے، مثلاً ایسے ممالک جہاں گرمیوں میں سورج غروب ہی نہیں ہوتا، اور سردیوں میں سورج طلوع نہیں ہوتا، تو ان کیلئے ہر 24 گھنٹے میں پانچ نمازیں پوری کرنا لازمی ہے، اس کیلئے نمازوں کے اوقات اندازے سے مقرر کریں گے، بالکل اسی طرح جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے رونما ہونے والے دن سے متعلق نصیحت فرمائی ہے کیونکہ اس کا ایک دن سال کے برابر ہوگا، دوسرا دن ایک ماہ کے برابر، اور تیسرا دن ہفتے کے برابر ہوگا، تو لوگ ان دنوں میں اوقات کا حساب لگا کر نمازیں ادا کرینگے۔
اور پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ نمازوں کے اوقات کیلئے قریب ترین ایسے ملک کو بنیاد بنائیں گے جہاں پر نمازوں کے اوقات الگ الگ ہیں۔
تفصیل پہلے ہی سوال نمبر: (106527) کے جواب میں گزر چکی ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس شخص نے یہ فتوی دیا ہے کہ "ایسے ممالک جہاں دن بہت لمبا ہوتا ہے وہ سعودی عرب
کے وقت کے مطابق روزہ رکھیں" یہ واضح طور پر غلط ہے، اور کتاب و سنت سے متصادم بھی
ہے، بلکہ ہم کسی بھی اہل علم کو نہیں جانتے جنہوں نے ایسی بات کہی ہو۔
ہاں اگر کوئی ایسا ملک ہے جہاں دن اور رات کا 24 گھنٹوں میں تصور ہی نہیں ہے، مثلاً
ایسے علاقے جہاں ایک دن 48 گھنٹے یا ہفتے یا مہینے سے بھی زیادہ ہو تو ۔۔۔ اس کے
بارے میں عصرِ حاضر کے علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں کہ: جن علاقوں میں دن اور
رات 24 گھنٹے سے زیادہ وقت پر مشتمل ہوتے ہیں ان کے دن اور رات کیلئے کس کو معیار
بنایا جائے گا؟
- چنانچہ کچھ کہتے ہیں کہ برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے چنانچہ 12 گھنٹے کی رات اور 12 گھنٹے کا دن تصور کیا جائے؛ کیونکہ معتدل موسم اور علاقوں میں یہی مقدار ہوتی ہے۔
- اور کچھ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں مکہ اور مدینہ کے مطابق دن اور رات تصور کیے جائیں گے، کیونکہ انہی دونوں شہروں میں وحی نازل ہوئی، چنانچہ اگر کسی شہر میں دن اور رات کیلئے کوئی مخصوص دورانیہ نہیں ہے تو دن اور رات کی جو مدت مکہ اور مدینہ میں ہے وہی مدت معتبر ہوگی۔
-
اور کچھ کہتے ہیں کہ ایسے قریب ترین ملک کو معتبر سمجھا جائے گا جہاں 24 گھنٹوں کے
دوران دن اور رات آتے جاتے ہیں۔
یہ موقف صحیح ترین معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ جغرافیائی اعتبار سے قریب ترین ملک کیساتھ
اسے ملانا دور والے شہر کیساتھ ملانے سے بہتر ہے؛ کیونکہ قریب والا شہر دور والے
شہر سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے" انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (19/309)
دوم:
یہ بات یقینی ہے کہ ان ممالک میں رہائش پذیر لوگوں کو گرمیوں کے روزے رکھنے میں بہت مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ان کا دن بہت لمبا ہوگا، تاہم اللہ تعالی ان کے اجر اور صبر کو رائیگاں نہیں فرمائے گا، کیونکہ عبادت کرتے ہوئے تھکاوٹ زیادہ ہونے پر ثواب بھی زیادہ ملتا ہے، بشرطیکہ انسان خود سے تھکاوٹ کے اسباب پیدا نہ کرے، بلکہ اس بارے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عمرہ کیلئے نکلتے ہوئے فرمایا تھا: ( [اس کا اجر]تمہارے خرچ یا محنت کے برابر ہی ہوگا) بخاری: (1787) مسلم: (1211)
تاہم اگر کوئی شخص لمبے دن کی وجہ سے روزہ مکمل نہیں کر سکتا تو اس کیلئے روزہ چھوڑنا جائز ہے، اور پورے سال کے کسی بھی دن میں قضا دے سکتا ہے، چاہے دن کی مقدار دو یا تین گھنٹے ہی کیوں نہ ہو، اور ایسا کچھ ممالک میں ہوتا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر لمبے دنوں میں روزہ رکھنا نا قابل برداشت ہو ۔۔۔ اور جسم کو نقصان کا خدشہ ہو
یا بیمار ہونے کا اندیشہ ہو تو اس وقت روزہ چھوڑنا جائز ہوگا، نیز ان ایام کی قضا
قدرے چھوٹے ایام میں دے سکتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے روزوں کی آیات کے سیاق میں
فرمایا ہے:
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ
وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے‘ سختی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ
چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی
بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ [البقرة : 185]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا
جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ
سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا
عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا
الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ
النَّصِيرُ
ترجمہ: اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر قائم ہو
جاؤ ، اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم" رکھا تھا اور قرآن میں بھی تاکہ رسول تم
پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ
رہو وہ تمہارا مولی ہے وہ بہت ہی اچھا مولی اور بہت ہی اچھا مدد گار ہے [الحج : 78]
ایسے ہی فرمایا:
لَا
يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا
اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا
وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا
رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ
لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، جو نیکی کرے
وہ اسی کے لیے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ بھی اسی پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم
بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ
ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی
ہمیں طاقت نہ ہو، ہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما دے ۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو
ہی ہمارا مالک ہے ، ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرما [البقرة : 286] " انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (19/309)
سوم:
اگر کچھ نمازوں کا وقت بالکل واضح ہو ، اور کچھ کا واضح نہ ہو تو جن نمازوں کا وقت بالکل واضح ہے انہیں مقررہ وقت پر ادا کرنا واجب ہے، اور جن نمازوں کا وقت بالکل واضح نہیں ہے ان کیلئے اندازے سے وقت مقرر کیا جائے گا۔
یہ امر سویڈن اور اسے ملحقہ علاقوں میں عشاء کی نماز میں رونما ہوتا ہے، کیونکہ وہاں طلوعِ فجر کا وقت شفق غروب ہونے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے، اور عشاء کی نماز کا وقت شفق غروب ہونے پر ہوتا ہے۔
تو اہل علم کے صحیح موقف کے مطابق صحیح بات یہ ہے کہ وہ لوگ عشاء کی نماز پڑھیں گے، اور اس کیلئے اندازے سے وقت مقرر کریں، تاہم کچھ حنفی فقہاء کے ہاں ایسے لوگوں پر نماز فرض نہیں ہے، کیونکہ ان کے نزدیک نماز کی فرضیت کا سبب نہیں پایا گیا اور وہ ہے وقت۔ مزید کیلئے دیکھیں: " مراقی الفلاح " (ص 73)
چنانچہ
"حاشیۃ الروض المربع" میں ہے کہ:
"بلغاریہ کے باسیوں جیسے لوگ جنہیں ان نمازوں کا وقت ہی نہیں ملتا وہ بھی یہ نمازیں
ادا کریں گے، چنانچہ اس کیلئے وقت اندازے سے بالکل ایسے ہی متعین کیا جائے گا جیسے
دجال کے دنوں میں ہوگا؛ کیونکہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: (نمازوں کیلئے اندازہ لگاؤ۔۔۔) اور سرخسی اور بلقانی نے [نمازوں]کے
ساقط ہونے کا فتوی دیا ہے، جبکہ ان کے علاوہ دیگر علمائے کرام نے واجب ہونے کا
فتوی دیا ہے، اور یہ بات درست بھی ہے؛ کیونکہ ان دنوں کو ایام دجال پر قیاس کیا جا
سکتا ہے" انتہی
" حاشية الروض المربع " (1/468)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایسے ممالک کے بارے میں سوال پوچھا گیا جہاں عشاء کی
نماز کا وقت شروع ہونے کیلئے شفق کی سرخی غائب ہونے میں بہت تاخیر ہو جاتی ہے، اور
انہیں اس وقت تک انتظار کرنا مشقت کا باعث ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر طلوعِ فجر تک شفق غائب ہی نہیں ہوتی ، یا طلوعِ فجر سے پہلے غائب تو ہوتی ہے
لیکن اتنے سے وقت میں عشاء کی نماز پڑھنا ممکن نہیں ہوتا، تو انکا حکم ایسے لوگوں
جیسا ہے جنہیں عشاء کا وقت نہیں ملتا، چنانچہ یہ لوگ قریب ترین ایسے ملک کے وقت
کو نمازِ عشاء کیلئے معیار بنائیں گے جہاں عشاء کی نماز کا معتبر وقت طبعی طور
پر موجود ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگ مکہ مکرمہ کے وقت کو معیار
بنائیں گے؛ کیونکہ مکہ مکرمہ کا نام ہی "ام القری" [سب بستیوں کی ماں]ہے۔
اور اگر طلوعِ فجر سے اتنی دیر پہلے شفق غائب ہو جائے کہ عشاء کی
نماز پڑھی جا سکتی ہو اور انہیں مشقت نہ ہو تو شفق غائب ہونے کا انتظار کرنا
چاہیے، اور اگر مشقت ہو تو عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ جمع کر کے ادا کرنا جائز
ہوگا، تا کہ انہیں مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے، سختی کا ارادہ نہیں رکھتا۔
[البقرة : 185]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا
جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
ترجمہ: اور اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی [الحج : 78]
اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ظہر اور عصر ، اسی طرح مغرب اور عشاء کی نماز مدینہ منورہ میں بغیر
کسی خوف اور بارش کے جمع فرمائی" تو لوگوں نے پوچھا: "آپ نے ایسا کیوں کیا؟" تو
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: "آپ اپنی امت کو حرج میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے"
یعنی نمازیں الگ الگ پڑھنے کی وجہ سے امت حرج میں مبتلا نہ ہو" انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین " (12/206)
واللہ اعلم.