الحمد للہ.
روزے کی حالت میں لڑکی اپنی سہیلی کے گال پر بوسہ دے سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اس بوسے کا مقصد اظہارِ محبت ہو، شہوت مقصود نہ ہو۔
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزے دار کا بوسہ تین قسموں میں منقسم ہے:
1- بوسہ دیتے ہوئے شہوت کا کوئی عمل دخل نہ ہو، جیسے کہ انسان اپنے چھوٹے بچوں کو بوسہ دیتا ہے، یا سفر سے واپس آنے والے شخص کو بوسہ دیتا ہے، چنانچہ اس قسم کے بوسے سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور روزے کی وجہ سے اس کا کوئی خصوصی حکم بھی نہیں ہے۔
2- ایسا بوسہ جس سے شہوت کو ہوا ملے[جیسے کہ انسان اپنی بیوی کو بوسہ دے] لیکن اسے منی خارج ہونے کا خدشہ نہ ہو، تو امام احمد کے نزدیک ایسا بوسہ مرد کیلئے مکروہ ہے۔
3- منی خارج ہونے کی وجہ سے روزہ ٹوٹنے کا مکمل خدشہ ہو تو منی خارج ہونے پر روزہ ٹوٹ جائے گا، مثال کے طور پر بوسہ دینے والا شخص حساس شہوت کا مالک ہو، اور اپنی بیوی سے انتہا کی محبت کرتا ہو، تو ایسا شخص اس حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے گا تو یہ خطرات سے خالی نہ ہوگا، تو ایسے شخص کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس پر بوسہ لینا حرام ہے؛ کیونکہ وہ اپنے روزے کو خطرات کے در پے کر رہا ہے۔
یہاں پہلی قسم کے جائز ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ اصولی طور پر بوسہ لینا جائز ہے، یہاں تک کہ کوئی منع کی دلیل ملے، جبکہ تیسری قسم کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
تاہم دوسری قسم جس میں شہوت انگیخت ہونے کا امکان ہے لیکن اسے اپنے بارے میں انزال نہ ہونے کا یقین ہے تو صحیح یہی ہے کہ اس کیلئے بوسہ دینا مکروہ نہیں ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بخاری: (1927) اور مسلم: (1106) کی روایت کے مطابق روزے کی حالت میں بوسہ دیا کرتے تھے"
چنانچہ روزہ دار کے بوسہ دینے کے بارے میں صرف دو صورتیں ہیں:
ایک صورت جائز اور دوسری قسم حرام ہے، حرام ایسی صورت میں ہے کہ روزہ فاسد ہونے کا خدشہ ہو۔
جبکہ جائز صورت کی دو حالتیں ہیں:
1- بوسہ دینے میں شہوت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
2- شہوت کو ہوا تو ملے لیکن اپنا روزہ نہ ٹوٹنے کے متعلق مطمئن ہو۔
بوسے کے علاوہ جماع کی ابتدائی چیزیں مثلاً: گلے ملنا وغیرہ کا بھی بوسہ والا ہی حکم ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: " الشرح الممتع " (6/426-429) مختصراً
واللہ اعلم.