الحمد للہ.
شرعی طور پر مزاح اور مذاق کی کچھ شرائط ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:
1-دین کے متعلق کسی چیز کا مذاق نہ اڑایا جائے، کیونکہ یہ نواقض الاسلام میں شامل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (٦٥) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
ترجمہ: اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے تو ضرور ہی کہیں گے ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دے کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟ [65]عذر پیش مت کرو، تم نے ایمان کے اظہار کے بعد کفر کر لیا ہے۔ [التوبہ: 65 - 66]
تو اس آیت کے تحت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی کا، یا اللہ تعالی کی آیات کا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑانا کفر ہے، اور ایسا شخص ایمان سے نکل کر کفر میں چلا جاتا ہے۔"
اسی طرح کچھ سنتوں کے ساتھ مذاق کرنا بھی یہی حکم رکھتا ہے، مثلاً: ڈاڑھی یا پردے کو مذاق کا نشانہ بنائے، یا لباس ٹخنے سے اونچا رکھنے پر طعن و تشنیع کرے تو یہ بھی یہی حکم رکھتا ہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "المجموع الثمين "1/63 میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کی ذات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات، وحی اور دین وغیرہ انتہائی قابل احترام ہیں، ان کے بارے میں کسی قسم کا مذاق کرنا بالکل جائز نہیں ہے، نہ تو کسی کو ہنسانے کے لیے اور نہ ہی بطور مزاح ان کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے؛ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو وہ کافر ہے؛ کیونکہ ایسا شخص در حقیقت اللہ تعالی کی ذات، رسولوں، کتابوں، اور شریعت کو حقیر سمجھ کر مذاق اڑا رہا ہوتا ہے، اگر کوئی شخص ایسا کام کر لے تو اس پر توبہ کرنا لازم ہے، کیونکہ یہ نفاق ہے، اس پر توبہ اور استغفار کرنا لازم ہو جاتا ہے، اسے چاہیے کہ اللہ تعالی سے اصلاحِ احوال کی دعا بھی کرے، اور اللہ تعالی سے اپنے دل میں خشیت الہی مانگے، دعا کرے کہ اسے اللہ تعالی کی تعظیم، اللہ کا خوف اور محبت الہی حاصل ہو۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔"
2-مذاق میں بھی سچ ہی بولا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو بات کرے تو جھوٹ بولے، صرف اس لیے کہ لوگ اس کی بات پر ہنسیں، اس کے لیے ہلاکت ہے۔) ابو داود
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کے غلط راستے سے خوب ڈرایا ہے کہ کچھ لا پرواہ قسم کے لوگ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ایک شخص کوئی بات اس لیے کرتا ہے کہ مجلس میں موجود لوگوں کو ہنسائے، تو وہ اس بات کی وجہ سے ثریا سے بھی زیادہ دور جہنم میں جا گرتا ہے۔) مسند احمد
3-مذاق میں ڈراؤ دھمکاؤ نہ ہو۔
خاص طور پر ایسے لوگ جو بہت توانا اور مضبوط جسم کے مالک ہوتے ہیں، یا جن کے پاس کوئی ہتھیار یا خنجر وغیرہ ہے، یا جو اندھیرے اور لوگوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں، تو یہ مزاح بھی غلط ہے، سیدنا ابو لیلی کہتے ہیں کہ: (ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام نے بتلایا کہ وہ نبی مکرم کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، تو ان میں سے ایک آدمی سو گیا اور دوسرا اس کے ہاتھ سے رسی لینے لگا جو اس کے پاس تھی ، تو وہ ڈر گیا ، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے ۔)ابو داود
4- پھبتی کسنا، اشاروں اور کنایوں سے کسی کی عیب جوئی کرنا۔
سب لوگ فہم و فراست میں یکساں نہیں ہوتے، تو کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کو اشاروں کنایوں کے ذریعے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، تا کہ دوسرے لوگوں کو ہنسنے کا موقع ملے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو ! ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں، اور تم اپنے مسلمان بھائیوں پر طعنہ زنی نہ کرو، اور ایک دوسرے کو برے القاب نہ دو، ایمان لانے کے بعد مسلمان کو برا نام دینا بڑی بری شے ہے، اور جو ایسی بد زبانی و بد اخلاقی سے تائب نہیں ہوں گے، تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔[الحجرات: 11]
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ : دوسروں کو حقیر ، کم تر اور گھٹیا سمجھنا، اور ان کا مذاق اڑانا۔ یہ سب کچھ حرام ہے، اور اسے منافقوں کی صفات میں شامل کیا گیا ہے۔"
کچھ لوگ کسی کی جسمانی ساخت کو نشانہ بناتے ہیں، یا چلنے کے انداز پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، یا سواری کے متعلق نکتہ چینی کرتے ہیں، تو ایسے لوگوں کے متعلق خدشہ ہے کہ اللہ تعالی ان کے مذاق کی وجہ سے انہیں ویسا ہی بنا دے! کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے بھائی کے بارے میں پھبتی مت کسو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی اس پر رحم فرما دے اور تجھے اس میں مبتلا کر دے۔) ترمذی
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسروں کا ٹھٹھہ اڑانے اور ایذا رسانی سے بھی منع فرمایا؛ کیونکہ اس کی وجہ سے دلوں میں دشمنی اور بغض پیدا ہو جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر کبھی ظلم نہیں کرتا، نہ ہی اسے رسوا کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقوی یہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار اپنے سینے کی جانب اشارہ فرمایا۔ اور کہا: کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے۔ تمام مسلمانوں کی جان، مال اور عزت سب مسلمانوں کے لیے حرام ہے۔) مسلم
5- حد سے زیادہ مزاح نہیں ہونا چاہیے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر وقت مزاح میں ہی لگے رہتے ہیں، اور یہی ان کی عادت بن جاتی ہے، یعنی مومن کی امتیازی صفت سنجیدگی سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ مزاح ایک رخصت ہے جسے انسان اپنی چستی اور توانائی بحال رکھنے کے لیے بقدر ضرورت استعمال کرتا ہے، ہر وقت کا مزاح اچھی چیز نہیں ہے۔
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں: "بہت زیادہ مذاق سے بچو؛ کیونکہ یہ بیوقوفی ہے اس سے دلوں میں کینہ پیدا ہوتا ہے۔"
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ممنوعہ مذاق وہ ہے جس میں انسان حد سے تجاوز کر جائے اور ہر وقت مذاق میں رہے؛ اس سے انسان ہنستا تو ہے لیکن دل بھی سخت ہوتا ہے، انسان اللہ کے ذکر سے دور ہو جاتا ہے، اور اکثر و بیشتر موقعوں پر مذاق دوسروں کو ایذا رسانی کا موجب بنتا ہے، دلوں میں کینہ پیدا ہو جاتا ہے، انسان کا وقار اور ہیبت جاتی رہتی ہے، چنانچہ اگر کوئی مزاح یا مذاق کرے لیکن ان منفی چیزوں سے محفوظ رہے تو ایسا مذاق جائز ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی طرح کا مزاح کیا کرتے تھے۔
6-لوگوں کے مقام اور مرتبے کو مد نظر رکھیں:
کیونکہ کچھ لوگ مذاق کرتے ہوئے کسی کا لحاظ نہیں رکھتے، تو یہ غلط ہے؛ کیونکہ عالم دین کا حق زیادہ ہے، بڑے کا احترام الگ ہی چیز ہے، استاد کا وقار بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیے، اس لیے مذاق کرنے سے پہلے مخاطب کے بارے میں پہچان حاصل کر لے، لہذا کسی بیوقوف سے مذاق نہ کرے، نہ ہی کسی احمق سے ، اسی طرح جس سے جان پہچان نہ ہو اس سے بھی مزاح نہ کرے۔
اسی کے بارے میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں: "مزاح سے بچو؛ کیونکہ اس سے مروت جاتی رہتی ہے۔"
اسی طرح سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: محدود پیمانے میں مزاح کرو، کیونکہ بہت زیادہ مزاح کرنے سے چہرے کی رونق ختم ہو جاتی ہے اور بیوقوف لوگوں کو آپ پر باتیں کسنے کا موقع ملتا ہے۔"
7-مزاح اتنا ہی کافی ہوتا ہے جتنا کھانے میں نمک:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بہت زیادہ کھل کھلا کر مت ہنسو؛ کیونکہ اس کی کثرت سے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔)صحیح الجامع: (7312)
اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "جو جس قدر زیادہ ہنستا ہے اس کی ہیبت اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، اور جو خود دوسروں سے مذاق کرتا ہے تو لوگ بھی اس سے مذاق کرتے ہیں۔ جس شخص میں جو چیز زیادہ پائی جائے وہ اسی سے مشہور ہو جاتا ہے۔"
{ فإياك إياك المزاح فإنه يجرئ عليك الطفل والدنس النذلا }
اپنے آپ کو مذاق سے بچاؤ؛ کیونکہ مذاق کی وجہ سے بچے، اور کمینے لوگوں کو بھی تمہارے خلاف جرأت ملے گی۔
{ ويُذهب ماء الوجه بعد بهائه ويورثه من بعد عزته ذلاً }
مذاق چہرے کی رونق ختم کر کے انسان کو عزت کے بعد ذلیل کروا دیتا ہے۔
8-مذاق میں غیبت نہیں ہونی چاہیے:
یہ بہت بری بیماری ہے کہ کچھ لوگ کسی کی غیبت مذاق کے موڈ میں کرتے ہیں، یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کی رو سے اس ممانعت میں شامل ہے: (تم اپنے بھائی کا ذکر ایسے کرو جو اسے ناپسند ہے۔) مسلم
9-مذاق کے لیے کوئی مناسب وقت اختیار کرے:
مثلاً: سیر و تفریح کے لیے آپ کہیں جائیں، یا شب بیداری کی محفل ہو، یا دوست سے ملاقات کے وقت مذاق کریں تو چٹکلے بیان کریں، یا لطیفے سنائیں، یا ہلکا پھلکا مذاق بھی کریں تا کہ خود بھی فریش ہوں اور دوست کو بھی ذہنی تناؤ سے نکلنے کا موقع ملے۔ اسی طرح گھر میں اگر میاں بیوی کی آپس میں ان بن ہو جائے اور مسائل کھڑے ہونے لگیں تو بات مزاح میں ڈال دیں، ایسے وقت میں ہلکا پھلکا مزاح اچھا ہوتا ہے اس سے دوریاں ختم ہوتی ہیں اور قربتیں بڑھتی ہیں، نیز معاملات اپنے معمول کی ڈگر پر آ جاتے ہیں۔
مسلمان بھائی!
ایک شخص نے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے کہا: "مذاق بہت بری چیز ہے! تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا: بری نہیں ، بلکہ سنت ہے! لیکن مناسب اور صحیح جگہ مذاق کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔"
آج امت مسلمہ کے افراد کو باہمی شیر و شکر ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے، انہیں چاہیے کہ اپنی زندگیوں سے مایوسی نکال دیں، لیکن اس کی دوسری انتہا یہ ہے کہ امت اس وقت ہنسی مذاق اور تفریح میں ہی مگن ہے، یہی امت کے افراد کا کام اور مشغلہ رہ گیا ہے کوئی بھی مجلس اور بیٹھک اس سے خالی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وقت بہت ضائع ہوتا ہے، اور عمر رائگاں جا رہی ہے، اور نامہ اعمال ہنسی مذاق سے ہی بھرتے چلے جا رہے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اگر تمہیں ان چیزوں کا علم ہو جائے جو مجھے معلوم ہیں تو تم ہنسوں کم اور اشک زیادہ بہاؤ)
فتح الباری میں ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں علم سے مراد: اللہ تعالی کی عظمت، اور نافرمانوں کو ملنے والا عذاب ہے، اسی طرح موت کے وقت، موت کے بعد قبر اور قیامت کے ہولناک مناظر ہیں۔"
اس لیے مسلمان مرد ہو یا عورت انہیں چاہیے کہ دوست اچھے افراد کو بنائیں، جو دنیاوی اوقات کو اللہ تعالی کی رضا اور اخروی کامیابی کے لیے مکمل سنجیدگی کے ساتھ گزارنے میں معاون ہوں، ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو نیک لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوں۔ جیسے کہ بلال بن سعد کہتے ہیں: "میں نے ایسے لوگوں کی رفاقت پائی ہے جو بھاگ بھاگ کر کام کرتے تھے، ایک دوسرے کو مزاح بھی کرتے تھے لیکن جب رات ہوتی تو خوب گڑگڑاتے تھے۔"
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک بار پوچھا گیا:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام ہنستے بھی تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، بالکل ہنستے بھی تھے، اور ان دلوں میں ایمان پہاڑ کی طرح مضبوط تھا۔
تو آپ اس طرح کے لوگوں جیسی زندگی گزارنے کی کوشش کریں جو دن میں شہسوار اور رات میں شب بیدار ہوتے تھے۔
اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اور ہم سب کے والدین کو قیامت کی دن کی ہولناکی سے محفوظ فرمائے، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جنہیں قیامت کے دن کہا جائے گا: اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ ترجمہ: تم سب جنت میں چلے جاؤ، تم پر نہ خوف ہے اور نہ ہی تم غمگین ہو گے۔ [الاعراف: 49]
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين