الحمد للہ.
اگرمعاملہ ايسا ہي ہے جيسا سوال ميں بيان كيا گيا ہے تو يہ ہديہ قبول كرنا جائزنہيں كيونكہ معاہدہ كي شروط پر عمل كرنے سے بہت ساري خرابياں لازم ہوں جن ميں مركز كي كميٹي كا يونيورسٹي كےقوانين اورضابطوں كے ماتحت ہونا جو كہ ہديہ قبول كرنےوالے كےليے مجھول ہے ، اور اس ميں كچھ اسلام كے مخالف بھي ہوسكتےہيں .
اور اسي طرح يہ بتايا گيا ہے كہ مركز رياست كےقوانين كےماتحت ہوگا اور يہ تو سب كومعلوم ہےكہ ان كےقوانين اسلام كےمخالف ہيں ، اور يہ بھي بتايا گيا ہے كہ مركز مسلمانوں اور يہوديوں وغيرہ سب كےليےہوگا جس كا معني ہوا كہ مسلمان ايسا مركز اور ادارہ قائم كرينگے جس ميں عيسائي اور يہودي دين كے شعائر پر بھي عمل ہوگا جو كہ بہت ساري مشكلات پيدا كرنے كا باعث ہے .
اور يہ بھي شرط ركھي گئي ہے كہ ہديہ دينےوالے كو ہديہ واپس لينے كا حق حاصل ہوگا اور اس كي رجسٹري يونيورسٹي كےنام ہوگي ... اس كےعلاوہ اور بھي بہت سے امور جن پر معاہدہ مشتمل ہے جو كہ شريعت اسلاميہ كے مخالف ہيں . ا ھ
اللہ تعالي ہي توفيق بخشنے والا ہے .