الحمد للہ.
اول:
رمضان میں نفل نماز اور خصوصاً قیام اللیل مستحب عبادات میں شامل ہے؛ کیونکہ یہ نوافل بھی رمضان میں عام نیکیوں کے تحت مستحبات میں شامل ہوتے ہیں ، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رمضان میں قیام اللیل کرنے کی خصوصی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص رمضان میں قیام ایمان اور ثواب کی امید سے کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں)
بخاری: (37) مسلم: (759) ، اس حدیث پر امام نووی رحمہ اللہ نے عنوان یہ قائم کیا ہے: "باب ہے قیامِ رمضان کیلیے ترغیب کے بارے میں، اور اس سے مراد تراویح ہے"
اس لیے ہر مسلمان کو رمضان المبارک میں خصوصی طور پر فرض نماز سے پہلے اور بعد والی سنتوں کا اہتمام کرنا چاہیے، با جماعت نماز تراویح ادا کرے، نیز نماز کیلیے مکروہ اوقات سے اجتناب کرتے ہوئے دیگر اوقات میں عام نوافل ادا کرے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (21740) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں قیام اللیل کرتے ہوئے گیارہ رکعات سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے، تاہم کبھی کبھار 13 رکعات ادا کر لیا کرتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری: (3569) مسلم: (738) میں ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا کہ: "رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟" تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: "آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نماز ادا نہیں کرتے تھے، اس کیلیے پہلے آپ [دو، دو کر کے]چار رکعات ادا کرتے ، ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں مت پوچھو، پھر [کچھ لمحات کا وقفہ کرنے کے]بعد چار رکعات مزید ادا کرتے، ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں بھی کچھ نہ پوچھو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات نماز ادا کرتے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کہ: اللہ کے رسول! آپ وتر ادا کرنے سے پہلے ہی سو رہے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا)"
اسی طرح بخاری: (1170) میں ہی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت 13 رکعات نفل ادا کرتے اور پھر جب صبح کی اذان ہو جاتی تو دو مختصر سی رکعات [فجر کی سنتیں] ادا کرتے تھے"
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا سے بخاری میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز سات یا نو رکعات بھی پڑھتے تھے، بخاری و مسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کرنے کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت 13 رکعت نماز ادا کرتے اور پھر اذان فجر کے بعد فجر کی 2 سنتیں ادا فرماتے تھے۔
نیز زید بن خالد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دو مختصر سی رکعات ادا کرتے پھر لمبی نماز پڑھتے، انہوں نے اپنی حدیث مکمل کرنے کے بعد آخر میں کہا ہے کہ: اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز 13 رکعات ہوتی تھیں"
قاضی کہتے ہیں کہ:
"علمائے کرام کا ان احادیث کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ: ان احادیث میں ابن عباس، زید اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کیا ہے" انتہی
سوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کیلیے کوئی معین عدد مقرر نہیں فرمایا کہ جس سے زیادہ نماز تراویح پڑھنا جائز نہ ہو، چنانچہ نماز تراویح کی رکعات کے بارے میں معاملہ وسعت والا ہے، ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص گیارہ رکعات سے زیادہ پڑھ لے تو حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے: (رات کی نماز دو، دو رکعت کر کے ادا کی جاتی ہے، چنانچہ اگر کسی کو صبح صادق طلوع ہونے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے اس سے سابقہ ادا شدہ تمام نوافل وتر ہو جائیں گے) اس روایت کو بخاری: (472) اور مسلم: (749) نے روایت کیا ہے۔
فقہائے کرام کے فقہی مذاہب بھی اسی بنیاد پر ہیں قائم ہیں ، چنانچہ حنفی فقہ میں 20 رکعت، اسی طرح امام احمد کے ہاں 20 رکعت، امام مالک کے ہاں 36 رکعات ہیں، اس لیے گیارہ پڑھیں یا کم و بیش کسی بھی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
"صحیح بات یہ ہے کہ کسی بھی تعداد میں تراویح ادا کرنا اچھا عمل ہے، اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ نے صراحت بھی کی ہے کہ قیامِ رمضان کے بارے میں کوئی خاص عدد معین نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلیے کوئی تعداد معین نہیں فرمائی، اس لیے قیامِ رمضان میں رکعات کی تعداد لمبے یا مختصر قیام کی وجہ سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیام لمبا فرماتے تھے، جس کی وجہ سے تعداد کم ہی رہتی تھی، جیسے کہ صحیح حدیث میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں سورہ بقرہ، نساء اور آل عمران پڑھی۔
تاہم جس وقت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے باجماعت تراویح پڑھائی تو آپ انہیں لمبا قیام نہیں کرواتے تھے، اس لیے رکعات زیادہ ہو جاتی تھیں؛ اور اس طرح رکعات کی اضافی تعداد قیام کی طوالت کا متبادل ہو جاتیں، نیز اہل علم نے رکعات کی تعداد آپ صلی اللہ علیہ سے ثابت شدہ رکعات سے دو گنا مقرر کیں؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 11 یا 13 رکعات پڑھتے تھے، اس کے بعد اہل مدینہ لمبا قیام کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے تو انہوں نے لمبے قیام کی بجائے رکعات کی تعداد زیادہ کر دی جو کہ 36 رکعت تک پہنچ گئی" انتہی
" مجموع الفتاوى " (23/113) ، اسی طرح دیکھیں: (23/ 120)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
" رکعاتِ تراویح کی تعداد معین نہیں ہے، اور علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے: بعض کی رائے یہ ہے کہ یہ 23رکعت ہے، اور بعض کی رائے اس سے کم و بیش بھی ہے، اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مسجد میں 23 رکعات نماز تراویح بھی پڑھی ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں 11یا 13 رکعت سے زیادہ ادا نہیں فرماتے تھے، اور آپ نے لوگوں کے لیے نماز تراویح اور تہجد کے لیے رکعتوں کی تعداد معین نہیں فرمائی ، بلکہ آپ قیام اللیل اور رمضان میں تراویح کی نماز کیلیے ترغیب دیتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو رمضان میں ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے قیام کرے گا تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے)
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکعتوں کی تعداد متعین نہیں فرمائی، لہذا تعدادِ رکعات قیام کی کیفیت کے اعتبار سے مختلف ہوگی؛ تو لمبا قیام کرنے والا رکعات کی تعداد کم رکھے جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اور جو لوگوں کا لحاظ رکھتے ہوئے رکعتوں میں تخفیف کرے تو وہ رکعتوں کی تعداد کو زیادہ رکھے جیسے کہ صحابہ کرام نے عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں کیا، اور آخری عشرے میں پہلے دو عشروں کے مقابل رکعتوں کی تعداد بڑھانے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں، بایں طور کہ پہلے تو رات کے اول حصے میں بطورِ تراویح نوافل پڑھتے ہوئے تخفیف کرے، جس طرح پہلے دو عشروں میں تراویح ادا کی تھیں اور پھر رات کے آخری حصے میں بطورِ تہجد نوافل ادا کرتے ہوئے لمبا قیام کرے ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں دیگر ایام سے کہیں زیادہ بڑھ کر عبادات کیلیے جد و جہد فرماتے تھے" انتہی
ماخوذ از: " فتاوى اللجنة الدائمة -دوسرا ایڈیشن" (6/82)
حاصل کلام یہ ہے کہ:
نماز تراویح کیلیے کوئی تعداد معین نہیں ہے کہ اس تعداد سے کم یا زیادہ ادا کرنا منع ہو؛ لہذا اگر کوئی شخص 30 رکعات یا کم و بیش تراویح ادا کرتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسے اس عمل کی وجہ سے بدعتی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز تراویح کیلیے کوئی معین عدد نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص 20 ادا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کوئی 30 ادا کرے تب بھی کوئی حرج نہیں، اور اگر کوئی 40 بھی ادا کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، 11 رکعات ادا کرنے والے کا عمل بھی ٹھیک ہے، 13 بھی ادا کی جا سکتی ہیں، تراویح کا معاملہ وسیع ہے اس میں کمی بیشی کرنے والے پر کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " (9/437)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (9036) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.