سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

احرام والی خاتون کو نقاب پہننے سے کیوں منع کیا گیا؟

223954

تاریخ اشاعت : 15-03-2015

مشاہدات : 18134

سوال

آپکی ویب سائٹ کے سوال نمبر: (172289) کے جواب کے مطابق احرام کی حالت میں کسی عورت کیلئے نقاب اور دستانے پہننا منع ہے، جیسے کہ یہی بات حدیث مبارکہ میں بھی ہے، لیکن اس کے باجود آپ نے ذکر کیا ہے کہ عورت کیلئے چہرے کو نقاب یا برقع کے علاوہ کسی اور چیز سے ڈھانپنا ضروری ہے، اب میرا سوال یہ ہے کہ اگر چہرے کو ڈھانپنا ضروری ہے تو نقاب کو استعمال کرنے میں کیا حرج ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج یا عمرہ کیلئے احرام باندھنے والی خاتون کو  نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا " بخاری

لیکن یہ بات کہیں بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کیا ہو، اور نہ ہی کہیں یہ بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو چہرہ کھولنے کا  حکم دیا ہو۔

اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں خواتین  اجنبی مردوں کے پاس سے گزرتے وقت  اپنے چہروں کو نقاب  کے بغیر کسی اور کپڑے سے  ڈھانپ لیتی تھیں۔

اس بات کا تفصیلی بیان فتوی نمبر: (172289) میں گزر چکا ہے۔

چنانچہ خواتین کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: خواتین  ایسا کوئی لباس مت پہنیں جو انکے چہرے اور ہاتھوں کے مطابق سلا ہو ا ہو، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہاتھوں اور چہرے کو ڈھانپنا ہی منع ہے۔

اور یہ حکم بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ نے احرام والے مردوں کو  قمیص اور شلوار  پہننے سے روک دیا  ؛ اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام والا آدمی ننگا رہے، بلکہ تہہ بند اور چادر سے اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھے۔

چنانچہ مرد کو جسم کے مطابق سلے ہوئے لباس پہننے سے منع کیا گیا، اور اسے شلوار قمیض کے علاوہ دیگر سادہ کپڑے سے جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا، یہی حکم عورت کا ہے کہ اسے نقاب اور دستانے پہننے سے منع کیا گیا،  تاہم پھر بھی عورت اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کسی اور چیز سے ڈھانپ  سکتی ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو یہ اجازت نہیں دی کہ احرام یا کسی اور حالت میں چہرہ کھلا رکھے، بلکہ  نقاب پہننے سے منع کیا گیا ہے، جیسے دستانے پہننے سے منع کیا گیا، ایسے ہی مرد کیلئے شلوار قمیص پہننے کی ممانعت ہے، اور یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ممانعت کے بعد اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ بدن کے ان حصوں کو ڈھانپا ہی نہ جائے، بلکہ تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ  مرد  اپنے جسم کو تہہ بند اور چادر سے ڈھانپ کر رکھیں گے۔۔۔ اب یہاں نص کی مراد  پر اضافہ کرتے ہوئے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عورت کیلئے اپنے چہرے کو سب کے سامنے کھلا رکھنا جائز ہے؟ کس نص کا یہ تقاضا ہے؟ کیا مفہومِ مخالف، عموم، قیاس، یا مصلحت  کا یہ تقاضا ہے؟!
بلکہ  صحیح بات یہ ہے کہ عورت کا چہرہ مرد کے بدن کی طرح ہے، لہذا  عورت کے چہرے کو  ایسے لباس سے ڈھانپنا  حرام ہے  جو چہرے کیلئے  مخصوص انداز سے تیار شدہ ہو، جیسے نقاب اور برقع وغیرہ ہیں، بلکہ اسکے ہاتھ کا بھی یہی حال ہے، کہ ہاتھوں کو   ہاتھ کے مطابق بنے ہوئے دستانوں  سے ڈھانپنا حرام ہے، جبکہ آستین سے ہاتھوں کو ڈھانپنا، اور سر کو اوڑھنی ، دوپٹے، اور کسی کپڑے سے ڈھانپنا  کہیں بھی منع نہیں ہے" انتہی
" بدائع الفوائد " (2/664-665)

اور " فتاوى اللجنة الدائمة " (11/192-193) میں ہے کہ:

"حج یا عمرے کے لئے احرام باندهی ہوئی عورت کا نقاب یا دستانہ پہننا اس وقت تک جائز نہیں ہے، جب تک کہ وہ تحلل اول  حاصل نہ کر لے، البتہ وہ اپنے سر پر ڈالے ہوئے ڈوپٹے سے اپنا چہرہ صرف اس وقت ڈهانکے گی، جب کہ اس کو کسی غیر محرم کی اس پر نظر پڑنے کا اندیشہ ہے، اور یہ اندیشہ ہمیشہ نہیں رہتا ہے، اس لئے کہ بعض عورتیں غیر محرم سے دور صرف اپنے محرموں کے ساتھ ہوتی ہیں، اور جو عورت غیر محرم سے دور نہیں ہو سکتی وہ اپنے چہرہ پر اوڑھنی ڈالے رکهے گی، اور اس طرح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی طرح وہ اپنے ہاتهوں کو بهی دستانہ پہننے كے بغیر عبایا وغیرہ کے آستین کے ذریعہ چھپائے گی۔
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے، صلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم"

شیخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز ،  شيخ عبد الرزاق عفیفی،  شيخ عبد الله بن غديان ،  شيخ عبد الله بن قعود " انتہی

شیخ عبد العزیز  بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث: (عورت نقاب اور دستانے مت پہنے) کا مطلب یہ ہے کہ:  ایسا کپڑاچہرے پر مت پہنے جسے خصوصی طور پر کاٹ  کر چہرے کے مطابق سلائی کیا گیا ہو، یا ہاتھوں کیلئے تیار کیا گیا ہو، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ  عورت اپنا چہرہ ، اور ہاتھ ڈھانپے ہی نہ ، کچھ لوگوں کی غلط فہمی ہے جو یہ مطلب بیان کرتے ہیں، ہاتھوں اور چہرے کو ڈھانپنا لازمی ہے، لیکن نقاب اور  دستانوں کے بغیر" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (5/223)

شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (7/165) میں کہتے  ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کیا ہو، بلکہ وارد شدہ ممانعت نقاب سے متعلق ہے، اور چہرے کوکسی بھی شے سے ڈھانپنے کی نسبت  نقاب سے ڈھانپناایک  خاص امر ہے کیونکہ نقاب چہرے کا مخصوص لباس ہے ، تو گویا عورت کو چہرے کا مخصوص لباس استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے، جیسے مرد کو پورے جسم کا مخصوص لباس  پہننے سے منع کیا گیاہے" انتہی

یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ احرام والی عورت کو نقاب پہننے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ یہ چہرے کے مطابق  تیار کیا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ عورت کے چہرے کو احرام کی حالت میں علمائے کرام مرد کے بدن کی طرح  کہتے ہیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب