سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ماہ صفر کے بارے میں بیان

سوال

سوال: کیا ماہِ صفر کی محرم الحرام کی طرح کوئی امتیازی حیثیت ہے؟ اس بارے میں تفصیلی روشنی ڈالیں، کیونکہ میں نے بہت سے لوگوں کو اسے منحوس مہینہ کہتے ہوئے سنا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

والصلاة والسلام على رسول الله:

حمد و صلاۃ کے بعد:

ماہِ صفر ہجری سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک ہے، جو کہ محرم الحرام کے بعد آتا ہے، اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ: اس ماہ میں اہل مکہ سفر کرتے تھے اور مکہ میں لوگوں کی تعداد "صفر" ہو جاتی، کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد اس ماہ لوٹ مار کا بازار گرم ہو جاتا  اور چور اچکے  لوگوں کو لوٹ کر انکی جمع پونجی "صفر" کر دیتے تھے۔
دیکھیں: لسان العرب، از ابن منظور: (4/462-463)

ا س مضمون میں ہم درج ذیل نکات پر گفتگو کریں گے:

1- دور جاہلیت میں اس ماہ کے متعلق نظریات۔

2- دور جاہلیت کے نظریات کی نفی میں شرعی نصوص۔

3- اسلام کی طرف نسبت رکھنے والے لوگوں میں اس ماہ کے متعلق پائی جانے والی بدعات اور نظریات بد۔

4- عہد نبوی کے دوران اس مہینے میں پائے جانے والے غزوات اور اہم واقعات۔

5- ماہِ صفر کے بارے میں من گھڑت روایات۔

اول:
دور جاہلیت میں اس ماہ کے متعلق نظریات۔

عربوں کے ہاں ماہ صفر میں دو بڑی برائیاں تھیں:

1- ماہ صفر کو اپنی جگہ سے آگے پیچھے کرنا

2-  ماہ صفر کو منحوس سمجھنا

  1. یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ایک سال  میں مہینوں کی تعداد بارہ رکھی ہے، اور ان مہینوں میں سے چار کو حرمت والے قرار دیا، چنانچہ ان چار مہینوں میں قتال لڑائی جھگڑا کرنا حرام ہے، حرمت والے چار مہینے یہ ہیں:  ذو القعدہ، ذو الحجہ، محرم، اور رجب

اس کی قرآن مجید میں دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ
ترجمہ:  بیشک آسمان و زمین کی تخلیق سے ہی اللہ تعالی کے ہاں کتاب میں سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی مضبوط دین ہے، چنانچہ ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم مت کرو [التوبہ : 36]

لیکن مشرکین جانتے بوجھتے ہوئے بھی ماہِ صفر کو اپنی مرضی سے آگے پیچھے کرتے رہتے تھے، جیسے کہ انہوں نے محرم کی بجائے ماہ صفر کو حرمت کا مہینہ قرار دیا۔

مزید برآں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سب سے بڑا گناہ ہے، درج ذیل میں ہم اہل علم کے اس سے متعلقہ اقوال ذکر کرتے ہیں:

أ‌- ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : عرب حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے، نیز وہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا  کر کہتے:

" إِذَا بَرَأَ الدَّبَرُ، وَعَفَا الْأَثَرُ، وَانْسَلَخَ صَفَرُ: حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرَ "
یعنی: جب حج کے سفر کی وجہ سے سواریاں زخم خوردہ ہو کر شفا یاب  ہو جائیں، زخموں کے نشانات مٹ جائیں، ماہ صفر گزر جائے تو عمرہ کرنے والا عمرہ کر سکتا ہے۔
بخاری: ( 1489 ) و مسلم :( 1240 )

ب‌- ابن عربی  کہتے ہیں: "نسیء"[ماہ صفر کو اپنی اصلی جگہ سے آگے پیچھے کرنے] کی کیفیت کیا ہوتی  تھی؟ اس کے بارے میں تین اقوال ہیں:

پہلا قول:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنادہ بن عوف بن امیہ کنانی ہر سال حج کیا کرتا تھا، اور یہ صدا لگاتا : "ابو ثمامہ[جنادہ کی کنیت] پر کوئی انگلی نہ اٹھائے،  اور نہ ہی اس کی بات مسترد کرنے کی کوشش کرے! پہلے سال میں ماہِ صفر کو حرمت والا مہینہ شمار نہیں کیا ، اور ہم ایک سال اس ماہ کو حرمت والا شمار کرتے ہیں اور ایک سال شمار نہیں کرتے" اس کے ساتھ قبیلہ ہوازن، غطفان، اور بنی سلیم بھی ہوتے تھے۔

ایک جگہ پر یہ الفاظ بھی ہیں: جنادہ کہتا : " ہم محرم کو حرمت والا ہی شمار کرینگے، جبکہ صفر کو مؤخر کرینگے" اور پھر آئندہ سال کہتا : "ہم اس سال محرم کی بجائے حرمت والے مہینے کو مؤخر کرتے ہوئے صفر کو حرمت والا شمار کرینگے" اسی من مانی کو حرمت والے مہینوں کے بارے میں "تاخیر" سے تعبیر کیا گیا ہے۔

دوسرا قول:
"نسیء" کا ایک مفہوم حرمت والے مہینوں میں زیادتی کا بھی ہے، چنانچہ قتادہ رحمہ ا للہ کہتے ہیں: "کچھ گمراہ لوگوں نے صفر کو بھی حرمت کے مہینوں میں شامل کر کے ان کی تعداد چار سے بڑھا کر پانچ کر دی، یہ لوگ اعلان کرتے ہوئے کہتے: "تمہارے معبودوں نے اس سال محرم کو حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے" یہ اعلان سن کر وہ اس سال محرم کو حرمت والا مہینہ شمار کرتے، پھر آئندہ سال اعلان ہوتا: "تمہارے معبودوں نے صفر کو بھی حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے" تو پھر اس سال صفر کو حرمت والا مہینہ شمار کرتے، اور کہتے کہ اس سال صفر کے دو ماہ ہیں"

ابن وہب  اور ابن قاسم  نے امام  مالک سے بھی یہی بات نقل کی ہے، انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا کہ: اہل جاہلیت اس سال میں دو بار صفر مناتے، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "[ایک سال میں دو بار ]صفر منانے کا کوئی تصور نہیں" اسی طرح کی روایت امام مالک سے اشہب نے بھی بیان کی ہے۔

تیسرا قول:
حج کے مہینے میں تبدیلی، اس بارے میں مجاہد سے إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ بیشک  "نسیء"[قمری مہینوں کی من مانی تقدیم و تاخیر]  کفر میں اضافے کا باعث ہے۔[التوبہ: 37]  کی تفسیر مروی ہے کہ : دور جاہلیت کے لوگ دو سال تک ذو الحجہ میں حج کرتے پھر آئندہ دو سال محرم میں، اس کے بعد اگلے دو سال صفر میں  اسی طرح حج پورے سال گھومتا یہاں تک کہ جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا تو وہ ذو القعدہ میں تھا، اس کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا کیا تو وہ ذو الحجہ میں ہی تھا، یہی وجہ ہے کہ صحیح حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کے الفاظ کچھ یوں تھے: (بیشک زمانہ اپنی اسی اصلی حالت  پر لوٹ آیا ہے جس پر اللہ تعالی نے اسے پیدا کیا تھا) ابن عباس وغیرہ نے نقل کیا ہے، اسی خطبہ کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! میری بات غور سے سنو!  مجھے علم نہیں ہے کہ شاید دوبارہ میری اور تمہاری یہاں ملاقات ہو سکے، لوگو! تمہارے مال و جان قیامت کے دن  تک ایک دوسرے کیلئے قابل احترام ہیں، بالکل اسی طرح جیسے آج کا دن، اس ماہ اور اس شہر میں  محترم ہے، یہ بات ذہن نشین کر لو! تم اپنے رب سے ملو گے، اور اللہ تعالی تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں مکمل حساب لے گا، میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے، لہذا جس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہے وہ صاحب امانت تک پہنچائے، ہر قسم کا سود آج سے کالعدم ہے، تمہیں صرف تمہارا اصل مال ہی ملے گا،  اس لئے تم کسی پر ظلم کرو، اور نہ ہی تم پر کوئی ظلم کرے، اللہ تعالی نے فیصلہ کر دیا ہے کہ سود بالکل نہیں چلے گا، چنانچہ سب سے پہلے عباس بن عبد المطلب کا سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح دور جاہلیت کے قتل کا قصاص بھی کالعدم ہے، چنانچہ دور جاہلیت کے قصاص کالعدم کرنے کیلئے  سب سے پہلے میں ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا قصاص ختم کرتا ہوں، جسے قبیلہ ہذیل نے بنی لیث میں رضاعت کے دوران قتل کر دیا تھا۔

اس کے بعد : لوگو! شیطان تمہاری سرزمین پر اپنی پرستش سے بالکل مایوس ہو چکا ہے، لیکن اسےدیگر  گناہوں پر امید ہےجو تمہاری نظر میں چھوٹے ہیں، اس لیے اپنے دین کو بچا کر رکھنا۔
پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ
ترجمہ: بیشک "نسیء" کفر میں مزید اضافے کا باعث ہے، اس کے ذریعے کفر میں ملوّث لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے، وہ [کچھ قمری مہینوں کو ] کبھی حرمت والا قرار دیتے ہیں اور کبھی نہیں، تا کہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حرمت والے مہینوں کی تعداد بھی پوری ہو جائے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بھی کر لیں۔ [التوبہ : 37]
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمانہ ایک بار پھر اپنی اصلی حالت پر واپس آگیا ہے جو زمین و آسمان کی تخلیق کے دن  تھی،  نیز مہینوں کی تعداد ایک سال میں اللہ تعالی کے ہاں بارہ ہی ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، جن میں تین مسلسل ہیں، اور چوتھا مہینہ جمادی ثانی اور شعبان کے درمیان والا ماہ یعنی رجب ہے)" اس کے بعد ابن عربی نے مکمل حدیث بیان کی ہے۔
" أحكام القرآن " ( 2 / 503 - 504 )

  1. ماہ صفر کو منحوس اور اس سے بد شگونی لینا دور جاہلیت میں بہت ہی مشہور تھا، بلکہ آج کل بھی بہت سے اسلام کا دعوی کرنے والے لوگوں میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیماری خود بخود متعدی نہیں ہوتی، بد شگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے، نہ ہی مردوں پر الّو بولتے ہیں، اور نہ ہی صفر کے مہینے میں کوئی نحوست ہے، کوڑھی کے مریض سے ایسے ہی دور رہو جیسے شیر سے دور بھاگتے ہو)
بخاری: ( 5387 ) و مسلم: ( 2220 )

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور "صفر" کی شرح میں متعدد اقوال ہیں:

پہلا قول: اس سے مراد ماہِ صفر ہی ہے، اور عرب اس مہینے کو منحوس بھی سمجھتے تھے۔

دوسرا قول: یہ پیٹ کی ایک بیماری ہے جو کہ اونٹوں کو لاحق ہو کر  پورے باڑے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اس صورت میں یہ متعدی بیماری کی اقسام میں سے ایک قسم شمار ہوگی۔

تیسرا قول: اس سے مراد صفر کے مہینے کیساتھ ہونے والی تقدیم و تاخیر ہے جسے شرعی اصطلاح میں "نسیء" کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں ماہِ محرم  کی حرمت کو صفر تک مؤخر کر دیا جاتا ، اور اس طرح  کبھی صفر کو حرمت والا مہینہ شمار کرتے اور کبھی عام مہینہ ہی رہنے دیتے۔

ان تینوں اقوال میں سے پہلا موقف سب سے راجح ہے، کیونکہ دورِ جاہلیت میں لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے تھے۔

حالانکہ  تقدیری معاملات میں وقت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، اس لئے ماہِ صفر بھی دیگر اوقات میں سے ایک وقت ہے، اس میں اچھائی برائی سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا ہے۔

دوسری جانب کچھ لوگ  ماہِ صفر میں کچھ کام مکمل کریں تو بطور تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں: مثال کے طور پر: "  25 صفر المظفر کو یہ کام مکمل ہوا" یہ صفر کیساتھ مظفر کا لاحقہ بھی بدعت کا علاج بدعت سے کرنے کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ ماہ صفر کو کسی بھی اچھے یا برے کام کیساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین کے پاس کسی نے الّو کی آواز سنی تو کہنے والے نے کہا: "ان شاء اللہ خیر ہوگی" تو انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہ: یہاں خیر و شر کی بات ہی نہیں کرنی چاہیے، الّو بھی بقیہ پرندوں کی طرح ہی بولتا ہے، اسے خیر و شر کا کیا علم۔

چنانچہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار چیزوں کی تردید فرمائی ہے ان تمام کا نچوڑ یہ ہے کہ توکل و اعتماد صرف اللہ تعالی پر ہو، اور اگر کسی کو ان میں سے کوئی بھی چیز در پیش ہو جائے تو کسی صورت میں بھی کام کرنے سے گریز مت کرے بلکہ اللہ تعالی پر اعتماد کرتے ہوئے کام کو نمٹا دے۔

لیکن اگر پھر بھی کوئی مسلمان ان چیزوں کو خاطر میں لے آئے تو اس کی دو میں سے ایک حالت ہوگی:

پہلی حالت: اگر ان چیزوں کو دیکھ کر پیش قدمی کرے یا گریز کرے تو ایسی صورت میں اس نے اپنے کاموں  کو ایسے امور سے منسلک کر دیا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری حالت: ایسی باتوں کی طرف دھیان نہ دے، لیکن پھر بھی اس کے دل میں کھٹکا لگا رہے ، یہ حالت اگرچہ پہلی سے کمتر ہے، لیکن پھر بھی اس بات کو یقینی بنائے کہ  ان چیزوں کی طرف مطلق طور پر بالکل بھی توجہ نہ دے، اور اپنا اعتماد و بھروسہ صرف اللہ تعالی پر رکھے۔

اس حدیث میں ان چار چیزوں کے وجود کی نفی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ چیزیں موجود ہیں، حسی طور پر نظر آتی ہیں، لیکن یہاں پر نفی ان کے مؤثر ہونے کی ہے ؛ کیونکہ تاثیر پیدا کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، لہذا اس حدیث میں اس بات کی نفی ہے کہ یہ چیزیں خود بخود ایسا  کر سکتی ہوں، ہاں مگر جب تک اللہ کی منشا اس میں شامل حال نہ ہو"
" مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین " ( 2 / 113 ، 115 )

دوم:
دور جاہلیت کے نظریات کی نفی میں شرعی نصوص

پہلے بخاری و مسلم کے حوالے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت گزر چکی ہے اور اس میں ذکر ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ ماہِ صفر کے بارے میں مذموم عقائد رکھتے تھے، حالانکہ ماہِ صفر کا کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے میں کوئی کردار نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی مرضی سے آکر چلا جاتا ہے۔

سوم: اسلام کی طرف نسبت رکھنے والے لوگوں میں اس ماہ کے متعلق پائی جانے والی بدعات، نظریات بد

  1. دائمی فتوی کمیٹی سے استفسار کیا گیا:
    " ہمارے ملک کے بعض علماء کا خیال ہے کہ دین اسلام میں ایک ایسی نفل نماز ہے جو ماہِ صفر کے آخری بدھ کو چاشت کی نماز کے وقت ایک سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے جس میں چار رکعتیں ہیں، اس کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ کوثر سترہ مرتبہ، اور سورہ اخلاص پچاس مرتبہ، جبکہ معوذتین ایک ایک مرتبہ پڑھی جاتی ہے، یہ عمل چاروں رکعات میں کیا جائے گا،  اور پھر سلام پھیر دیا جائے گا، پھر سلام پھیرنے کے بعد یہ آیت پڑھے:
    وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
    ترجمہ: اللہ تعالی اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ اس سے نابلد ہیں[يوسف : 21]     تین سو ساٹھ مرتبہ، اور جوھرۃ الکمال سے موسوم خود ساختہ درود تین مرتبہ، اور
    سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (181) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
    ترجمہ: تیرا رب ان کی مو شگافیوں سے پاک ہے وہی عزت کا خالق ہے [180] اور سلامتی ہو رسولوں پر [181] اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔[الصافات : 180 - 182] سے اس کا اختتام ہوتا ہے، پھر کچھ روٹیاں فقراء کے لئے صدقہ کی جاتی ہیں، اس آیت کی یہ خاصیت ہے کہ یہ ماہِ صفر کے آخری بدھ میں نازل  ہونے والے مصائب و پریشانیوں سے بچاؤ کا باعث بن جاتی ہے۔

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ  : ہر سال تین لاکھ بیس ہزار مصیبتیں نازل ہوتی ہیں جو کہ سب کی سب ماہِ صفر کے آخری بدھ میں آتی ہیں ، چنانچہ یہ دن پورے سال میں سب سے زیادہ سخت دن ہوتا ہے، لہذا جس نے یہ نماز مذکورہ کیفیت کے ساتھ پڑھی اللہ اسے اپنے فضل سے اس دن نازل ہونے والی تمام مصائب سے محفوظ رکھے گا، اور اللہ تعالی اس کی قوت کو ختم نہیں کرے گا کہ مبادا ہلاک ہی ہو جائے، اور بچے وغیرہ جو اس طرح نماز ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اسے لکھ کر نوش کر لیں کیا یہ درست ہے یا نہیں؟ "

تو کمیٹی نے جواب دیتے ہوئے کہا:
" سوال میں مذکور نفل نماز کی کوئی دلیل کتاب و سنت کے ذخیرے میں سے ہمارے علم میں نہیں ہے ، اور نہ ہی اس امت کے کسی سلف اور نیک خلف سے اس کا کوئی عملی ثبوت ملتا ہے؛ بلکہ یہ منکر بدعت ہے، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :(جس نے کوئی عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے)  اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: (جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے)

مزید برآں یہ کہ جس نے اس نماز سمیت مذکورہ  باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  یا صحابہ میں سے کسی کی طرف منسوب کیا ہے   تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا، وہ اللہ کی جانب سے جھوٹ بولنے والوں کی سزا کا مستحق ہوگا"
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 2 / 354 )

2. شیخ محمد عبد السلام شقیری کہتے ہیں:
"کچھ جاہل لوگ لفظ سلام پر مشتمل آیات  جیسے کہ " سَلَامٌ عَلَى نُوْحٍ فِيْ الْعَالَمِيْنَ" وغیرہ کو لکھ کر پانی سے بھرے برتنوں میں ڈال  کر پانی پیتے ہیں، اسے بابرکت اور مشکل کشا سمجھتے ہیں، یہ انتہائی بد عقیدہ ہے، بلکہ بد شگونی بھی ہے، چنانچہ کسی کو بھی ایسا کرتا دیکھیں تو اسے منع کرنا واجب ہے"
" السنن والمبتدعات " ( ص 111 ، 112 )

چہارم:
 عہد نبوی کے دوران اس مہینے میں پائے جانے والے غزوات اور اہم واقعات۔

ان کی تعداد تو بہت زیادہ ہے، لیکن ان میں سے منتخب واقعات بیان کرتے ہیں:

  1. ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس "ابواء" مقام پر غزوہ کیلئے تشریف لے گئے اس جگہ کو "ودّان" بھی کہتے ہیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا غزوہ تھا، جو کہ آپ کی ہجرت سے بارہ ماہ بعد صفر کے مہینے میں رونما ہوا، اس غزوہ میں حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ علمبردار تھے، آپ کا علم سفید رنگ کا تھا، آپ نے اس دوران مدینہ منورہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا ، آپ صرف مہاجرین کو لیکر قریش کے ایک تجارتی قافلے کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن وہ قافلہ پہلے ہی ممکنہ جگہ سے گزر چکا تھا۔

اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے بنی ضمرہ کے سربراہ مخشی بن عمرو ضمری کیساتھ امن معاہدہ  فرمایا، جس میں فریقین کی طرف سے یہ طے ہوا کہ کوئی بھی ایک دوسرے پر چڑھائی نہیں کریگا، فریقین میں سے کسی کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے، اور نہ ہی ایک دوسرے کے دشمن کی کسی قسم کی مدد کرینگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معاہدہ باقاعدہ تحریر کروایا ، آپ اس غزوے میں پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے"
" زاد المعاد " ( 3 / 164 ، 165 )

  1. اسی طرح انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ:

جب تین ہجری  میں ماہ صفر آیا تو اسی ماہ میں قبیلہ عضل اور قارہ  کے لوگ بھی آئے، انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا، اور ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کیساتھ  قرآنی تعلیم اور دینی تربیت کیلئے معلم ارسال کرنے  کی استدعا بھی کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ -ابن اسحاق کے مطابق- چھ جبکہ امام بخاری کے مطابق 10 معلمین ارسال فرمائے، جن پر مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا، انہی معلمین میں خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، قبیلے کے لوگ انہیں لیکر اپنے علاقے کی جانب چل دیے، تاہم جب وہ حجاز کے سرحدی علاقے میں بنو ہذیل کے کنوؤں پر "رجیع" مقام پر پہنچے ، تو انہوں نے دھوکہ دہی اور غداری کرتے ہوئے ہذیل کو ان کے خلاف بھڑکایا چنانچہ انہوں نے بھی ان کے ساتھ مل کر سب قتل کر دیے، جبکہ خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ  کو قیدی بنا کر مکہ میں فروخت کر دیا، کیونکہ انہوں نے معرکہ بدر میں مکہ کے سر غنہ کفار کو قتل کیا تھا۔
" زاد المعاد " ( 3 / 244 )

  1. اسی طرح ابن قیم رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ:
    چوتھے ہجری سال کے صفر میں بئر معونہ کا واقعہ رونما ہوا، جس کی مختصر روداد یہ ہے کہ: ابو براء عامر بن مالک  جو کہ "ملاعب الاسنّہ" [نیزہ باز] کے لقب سے مشہور تھا،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں آیا تو آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی، لیکن اس نے اسلام قبول نہ کیا لیکن اسلام سے دور بھی نہ ہو سکا، اور عرض کی: یا رسول اللہ! اگر آپ اپنے صحابہ کو اہل نجد  کی طرف اسلام کی دعوت دینے کیلئے بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ مسلمان ہو جائیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے اہل نجد سے خدشات لاحق ہیں) تو ابو براء نے کہا: "وہ میری پناہ میں ہونگے" چنانچہ آپ نے اس کی ذمہ داری پر ابن اسحاق کے مطابق چالیس، جبکہ صحیح بخاری کے مطابق ستّر صحابہ کرام بھیجے -صحیح بخاری کی تعداد درست ہے- ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی ساعدہ کے فرزند منذر بن عمرو  کو امیر بنایا جو کہ " مُعْنِق لِيَمُوْت" [مرتے دم تک جد و جہد کرنے والا] کے لقب سے مشہور تھے، صحابہ کرام کی اس جماعت میں شامل تمام  افراد ممتاز ، قابل، اور حافظ قرآن تھے، جس وقت بنی عامر اور بنی سلیم  کے علاقے میں "بئر معونہ" پہنچے  اور پڑاؤ کیا  تو انہوں نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بھائی حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو اللہ کے دشمن عامر بن طفیل  کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیکر بھیجا، لیکن اس نے ایک نظر بھی پیغام پر نہ ڈالی، بلکہ اپنے  کارندے کو حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کے پیچھے سے چھوٹے نیزے کا وار کرنے کا حکم دیا، جب نیزہ ان کے جسم میں پیوست ہوگیا اور خون بہنے لگا تو حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ نے زور سے صدا لگائی: " فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ "[رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا] اس کے بعد  عامر نے فوری طور پر بنی عامر کو بقیہ صحابہ کرام کو قتل کرنے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے صحابہ کرام کیساتھ ابو براء کی پناہ ہونے کی وجہ سے انکار کر دیا، پھر عامر نے بنی سلیم  کو اپنے ساتھ ملنے کی دعوت دی تو ان میں سے  عصیہ، رعل اور ذکوان اس کے ساتھ چل پڑے ،  انہوں نے سب صحابہ کرام کو گھیرے میں لیکر قتل کیا صرف  کعب بن زید بن نجار  کو زخمی حالت میں  اٹھایا گیا، اور آپ خندق  کے موقع پر اللہ کو پیارے ہوگئے۔

عمرو بن امیہ ضمری، اور منذر بن عقبہ بن عامر مسلمانوں کی تلاش میں تھے، جب انہوں نے جائے وقوعہ پر پرندے اڑتے دیکھے  تو منذر  نے مشرکوں کیساتھ لڑائی شروع کی حتی کہ مشرکوں نے انہیں بھی قتل کر دیا، اور عمرو بن امیہ ضمری کو قیدی بنا لیا، اس کے بعد عمرو نے انہیں بتلایا کہ اسکا تعلق مضر خاندان سے ہے، تو یہ سن کر عامر بن طفیل نے ان کی پیشانی سے بال کاٹ کر  بطور غلام آزاد کر دیا ، جو کہ اس کی ماں کے ذمہ تھا، عمرو  بن امیہ  واپس آگئے، راستے میں قرقرہ جگہ پر وادی کے کنارے پہنچے تو ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کیلئے اترے، وہیں پر بنو کلاب  کے دو آدمی بھی آرام کیلئے آئے، جب وہ دونوں سو گئے تو عمرو نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور یہ سمجھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کا بدلہ لے لیا ہے، لیکن ان کے سامان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لکھا ہوا امان نامہ برآمد ہوا تو پریشان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتلا دی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم نے دو قتل کیے ہیں میں اس کی دیت ضرور ادا کرونگا)
" زاد المعاد " ( 3 / 246 - 248 )

  1. ایک اور جگہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی جانب محرم کے آخر میں روانہ ہوئے، ابتدائے محرم میں نہیں ، چنانچہ فتح خیبر صفر کے آخر میں ہوئی۔
" زاد المعاد " ( 3 / 339 ، 340 )

  1. ایک جگہ کہتے ہیں:

قبیلہ خثعم کی جانب سریہ قطبہ بن عامر بن حدیدہ :
یہ سریہ بھی سن نو ہجری کو ماہ صفر میں رونما ہوا، چنانچہ ابن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطبہ بن عامر کو بیس افراد کی معیت میں تبالہ کی جانب خثعم قبیلے کی طرف ارسال فرمایا اور حکم دیا کہ ان پر حملہ کر دینا، تو یہ فوجی دستہ 10 اونٹوں کے ہمراہ روانہ ہوا  اور ایک اونٹ پر دو افراد باری باری سواری کرتے، راستے میں ایک آدمی ملا تو اس سے معلومات لینے کی کوشش کی لیکن اس نے مبہم سی بات کی ، اور ساتھ ہی  اپنی قوم  کو اونچی آواز میں صدائیں لگا کر خبردار کرنے لگا، تو انہوں نے اسے ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا، اور وہیں پڑاؤ ڈال لیا، جب اس کے قبیلے کے لوگ سو گئے تو انہوں نے ان پر دھاوا بول دیا، اور خوب گھمسان کی جنگ ہوئی، دو طرفہ  بہت سے لوگ زخمی ہوگئے، اور قطبہ بن عامر نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور آخر کار ان کے جانور، بھیڑ ، بکریاں اور خواتین کو مدینہ کی جانب لیکر روانہ ہو گئے، اسی سریہ میں یہ بات بھی رونما ہوئی کہ  لوگوں نے اکٹھے ہو کر  ان کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے  ایک بہت بڑا سیلابی ریلا ان کے اور مسلمانوں کے درمیان حائل  کر دیا اس طرح وہ ہاتھ ملتے دیکھتے ہی رہ گئے ، مسلمانوں کا پیچھا نہ کر سکے، اور مسلمان آرام کیساتھ مال غنیمت لیکر مدینہ پہنچ گئے۔
" زاد المعاد " ( 3 / 514 )

  1. ابن قیم رحمہ اللہ ایک جگہ کہتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی عذرہ کا بارہ افراد پر مشتمل وفد نو ہجری کو ماہ صفر میں آیا انہی میں جمرہ بن نعمان بھی شامل تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: (آپ لوگوں کا تعارف؟) تو ان کے ترجمان نے کہا: "ہمارا اور آپ کا گہرا تعلق ہے، ہم بنو عذرہ ہیں قصی کیساتھ ہماری ننھیالی رشتہ داری ہے، ہم لوگوں نے ہی قصی کو مکمل حمایت دیکر مضبوط بنایا تھا، جس کی بنا پر وہ مکہ کی وادی سے خزاعہ اور بنو بکر کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے، ہماری آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں" تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گرمجوشی کیساتھ خوش آمدید کہا، مجھے آپ سے مل کر مسرت ہوئی، آپ کی فراخدلی دیکھ کر وہ سب مسلمان ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ خوشخبری بھی سنائی کہ شام فتح ہوگا، اور ہرقل اپنے ملک سے رسوا ہو کر نکلے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کاہنوں کے پاس جانے سے منع فرمایا، نیز عید کی قربانی کے علاوہ غیر شرعی جانور ذبح کرنے سے بھی روکا، یہ لوگ چند دن تک دار رملہ میں قیام پذیر رہے، اور پھر انہیں جانے کی اجازت دی گئی  تو وہ واپس اپنے علاقے میں چلے گئے۔
" زاد المعاد " ( 3 / 657 )

پنجم:
 ماہِ صفر کے بارے میں من گھڑت روایات

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

فصل: مستقبل کی تاریخ سے متعلق احادیث:

ان میں وہ تمام احادیث شامل ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ : فلاں تاریخ کو ایسا ہوگا اور فلاں کو ایسا، مثال کے طور پر : جب فلاں سال شروع ہوگا تو اس میں ایسا  ایسا ہوگا، اور جب فلاں مہینہ آئے گا تو اس میں ایسا ایسا رونما ہوگا۔

جیسے کہ خود ساختہ اور من گھڑت روایات بنانے والے نے کہا ہے کہ: جب ماہ محرم میں چاند گرہن لگے تو مہنگائی، قتل و غارت عروج پر ہوگی، اور حاکم وقت سخت پریشانی میں ہوگا، اور جب ماہ صفر میں چاند گرہن لگے تو فلاں فلاں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

بلکہ اس شخص نے ہر مہینے کے بارے میں الگ الگ بات نقل کی ہے۔

اور ان سب روایات کی حقیقت یہ ہے کہ یہ سب من گھڑت اور خود ساختہ ہیں۔

دیکھیں:  " المنار المنيف " ( ص 64 )

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب