جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

علم نجوم

22445

تاریخ اشاعت : 03-12-2017

مشاہدات : 15133

سوال

کیا ہمارے لیے تاروں کا علم حاصل کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ:
"قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: اللہ تعالی نے تاروں کو تین مقاصد کیلیے پیدا فرمایا ہے: آسمان کی زینت، شیاطین کو مارنے کیلیے اور رہنمائی حاصل کرنے کیلیے بطور علامات، لہذا اگر کوئی شخص تاروں کا کوئی اور مقصد بیان کرتا ہے تو وہ غلطی پہ ہے اور اپنے وقت کو ضائع کر رہا ہے اور وہ ایسی چیز کے بارے میں تکلف کر رہا ہے جس کا اسے علم نہیں ہے" ختم شد
صحیح بخاری، باب فی النجوم (2/420)

علم نجوم کی دو قسمیں ہیں:

اول: علم تاثیر

دوم: علم رہنمائی

علم تاثیر کی پھر آگے تین اقسام ہیں:

1- یہ نظریہ رکھا جائے کہ تارے بذات خود اثر انداز ہوتے ہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ ان کے بارے میں یہ کہنا کہ تارے خود ہی حادثات اور نقصانات پیدا کرتے ہیں، تو یہ شرک اکبر ہے؛ کیونکہ جو شخص اس چیز کا مدعی ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی  خالق اور پیدا کرنے والا ہے تو وہ شخص شرک اکبر کا مرتکب ہے؛ کیونکہ اس شخص نے ایک مخلوق کو جو اللہ کے تابع ہے اسے بذات خود خالق اور مسخر کرنے والا بنا دیا ہے۔

2- ان تاروں کو انسان علم غیب جاننے کا ذریعہ بنائے، چنانچہ تاروں کی نقل و حرکت  اور ان کے آنے جانے سے یہ کشید کرے کہ اب فلاں فلاں کام رونما ہو گا؛ کیونکہ فلاں فلاں تارا  فلاں  منزل میں داخل ہو گیا ہے۔ مثال کے طور  کوئی نجومی کہے: فلاں شخص کی زندگی کٹھن ہو گی؛ کیونکہ اس کی پیدائش فلاں تارے کے وقت   ہوئی، اسی طرح کہے: فلاں شخص کی زندگی خوشحال ہو گی؛ کیونکہ اس کی پیدائش فلاں تارے کے وقت ہوئی۔ تو ایسا شخص حقیقت میں تاروں کو علم غیب جاننے کا وسیلہ اور ذریعہ بنا رہا ہے، حالانکہ علم غیب کا دعوی کرنا کفر ہے ، اس سے انسان دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ
ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب جاننے والا نہیں۔ [النمل: 65] تو قرآن مجید کی اس آیت میں حصر اور تخصیص کا سب سے قوی ترین اسلوب اپنایا گیا ہے کہ اس میں نفی اور استثنا دونوں استعمال ہوئے ہیں[تو مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں علم غیب جاننے والا نہیں ہے]؛ لہذا اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اسے غیب کا علم ہے تو وہ قرآن کو جھٹلا رہا ہے۔

3- تاروں کو خیر و شر کے رونما ہونے کا سبب قرار دے، تو یہ شرک اصغر ہے، مطلب یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز رونما ہو تو جھٹ سے  اسے تاروں کی جانب منسوب کر دے، یہ بھی واضح رہے کہ تاروں کی جانب ان کی نسبت خیر و شر کے رونما ہونے کے بعد ہی کرے، پہلے نہیں۔ اس بارے میں یہ قاعدہ  ہے کہ جو شخص کسی چیز کو کسی کا م کا سبب قرار دے حالانکہ اللہ تعالی نے اس چیز کو اس کام کا سبب نہ بنایا ہو تو وہ شخص  اللہ تعالی  پر زیادتی کر رہا ہے؛ کیونکہ مسبب الاسباب تو صرف اللہ ہے۔ مثلاً کوئی شخص  کسی دھاگے کو باندھ کر شفا یابی کی امید لگائے اور یہ کہے کہ  میرا ماننا یہ ہے کہ شفا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ دھاگا صرف سبب ہے، تو ہم اسے کہیں گے: تم شرک اکبر سے تو بچ گئے ہو لیکن شرک اصغر میں پھنس گئے ہوئے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے اس دھاگے کو شفا یابی کا ذریعہ بنایا ہی نہیں ہے،  اور تم نے اپنے اس عمل سے مقام ربوبیت  کو ٹھیس پہنچائی ہے کہ تم نے اس دھاگے کو شفا یابی کا سبب بنا دیا ہے حالانکہ اللہ تعالی نے اس دھاگے کو شفا یابی کا سبب نہیں بنایا۔

بالکل اسی طرح اس کا حکم ہے جو شخص تاروں کو بارش ہونے کا سبب قرار دیتا ہے  ؛ کیونکہ حقیقت میں بارش کا تاروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اس کی دلیل صحیح بخاری : (801) مسلم: (104) میں زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، اس رات کو بارش بھی ہوئی تھی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: (کیا تمہیں علم ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟) اس پر صحابہ کرام نے کہا:  اللہ اور اس کے رسول کو ہی بہتر علم ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بندوں میں سے کچھ  نے مجھ پر ایمان  اور کچھ نے کفر کرتے ہوئے صبح کی ہے، چنانچہ جس نے کہا کہ ہمیں اللہ کے فضل  اور اس کی رحمت سے بارش  ملی تو وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور تاروں سے کفر کرتا ہے، اور جس نے یہ کہا کہ ہمیں فلاں فلاں برج اور تارے کی وجہ سے بارش ملی تو وہ میرے ساتھ کفر کر رہا ہے اور تاروں  پر ایمان رکھتا ہے)تو اس حدیث میں بارش کی تاروں کی جانب سببی نسبت کرنے والوں پر حکم لگایا گیا ہے۔

دوم: علم رہنمائی

اس کی پھر آگے دو قسمیں ہیں:

1- تاروں کے چلنے  سے دینی رہنمائی حاصل کرے تو یہ شرعی طور پر مطلوب بھی ہے، اور اگر تاروں سے واجب نوعیت کے امور میں رہنمائی ملے تو پھر ایسے میں تاروں  کا علم سیکھنا واجب ہو گا؛ مثلاً تاروں سے قبلہ سمت معلوم ہو۔

2- تاروں کی نقل و حرکت سے دنیاوی امور میں رہنمائی ملے، تو اس کے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اس کی بھی دو قسمیں ہیں:

اول: تاروں سے جہتوں کا تعین ہو، مثلاً: جدی تارے سے قطب شمالی کا پتہ لگائیں؛ کیونکہ جدی شمال کے قریب ہی ہوتا ہے اور شمال کے آس پاس ہی گھومتا ہے، تو یہ جائز ہے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَاور ہم نے انہیں علامتیں بنایا اور وہ تاروں سے رہنمائی پاتے ہیں۔ [النحل: 16]

دوم: تاروں سے موسموں کا تعین کیا جائے ، یعنی چاند کی منزلوں کے بارے میں علم حاصل کیا جائے تو اسے بعض سلف نے مکروہ سمجھا ہے اور دیگر نے اسے مباح کہا ہے، جبکہ صحیح موقف یہ ہے کہ یہ جائز ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی کراہت نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں شرک نہیں پایا جاتا تاہم اگر کوئی شخص اس لیے سیکھتا ہے کہ ان کی جانب بارش ہونے اور سردی پڑنے کی نسبت کرے تو یہی وہ علت ہے جس کی وجہ سے اس میں شرک کی آمیزش ہوتی ہے، لہذا اگر صرف ان سے گرمی، سردی، بہار اور خزاں کا وقت معلوم کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: القول المفید از شیخ محمد ابن عثیمین  رحمہ اللہ (2/102)

واللہ اعلم.

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد