سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

قضائے حاجت کیلئے طواف روک کر گیا، اور پھر بعد میں مکمل کیا تو کیا اس کا طواف صحیح ہے؟

سوال

میں نے طواف افاضہ کے تین چکر کاٹے اور پھر مجھے بیت الخلاء جانے کی ضرورت پڑ گئی، چنانچہ میں نے وہاں سے فراغت کے بعد وضو کیا اور بقیہ چار چکر مکمل کر لیے، تو کیا میرا طواف درست ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحیح طواف کیلئے  جمہور علمائے کرام کے ہاں وضو شرط ہے، لیکن اس بارے دو آراء ہیں کہ اگر کسی کا دورانِ طواف وضو ٹوٹ جائے اور پھر وضو کرے تو سابقہ طواف ہی مکمل کریگا یا نئے سرے سے طواف کریگا؟

چنانچہ حنفی اور شافعی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ : اپنا سابقہ طواف ہی مکمل کریگا، چاہے درمیان میں آنے والا وقفہ کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو، کیونکہ ان کے نزدیک طواف کے چکروں میں تسلسل قائم رکھنا شرط نہیں ہے۔

جبکہ مالکی، اور حنبلی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ ایسا شخص دوبارہ سے طواف کریگا؛ کیونکہ  بے وضو ہونے کی وجہ سے پہلے چکر  کالعدم ہو گئے ہیں، لہذا  نئے سرے سے طواف کرنا لازمی ہوگا، اور یہی حکم اس وقت ہے جب طواف کے چکروں میں لمبا فاصلہ آ جائے، کیونکہ ان کے ہاں صحیح طواف  کیلئے طواف کے چکروں میں تسلسل قائم رکھنا شرط ہے۔

دیکھیں:  " الموسوعة الفقهية " (29/ 131)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر دوران طواف وضو ٹوٹ جائے تو نماز کی طرح طواف بھی ختم ہو جائے گا، چنانچہ جا کر وضو کرے اور پھر نئے سرے سے طواف کرے، یہی موقف صحیح ہے، اگرچہ اس مسئلہ میں متعدد آراء ہیں  لیکن یہی موقف طواف اور نماز دونوں کے بارے میں درست ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص کی نماز میں ہوا خارج ہو جائے تو وہ جا کر وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے) اس حدیث کو ابو داود نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
ویسے بھی طواف مجموعی طور پر نماز ہی کی ایک قسم ہے۔"
" مجموع فتاوى شیخ ابن باز" (10/160)

اسی طرح شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"طواف کے چکروں میں تسلسل ہونا لازمی شرط ہے، لیکن کچھ علمائے کرام نے  رخصت دیتے ہوئے  نماز جنازہ یا تھکاوٹ یا اسی طرح کے مختصر وقت کی مصروفیت کی صورت میں چند لمحات کیلئے وقفہ کرنے کی اجازت دی  ہے"انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل عثیمین" (22/ 296)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ:
"ایک شخص نے بیت اللہ  کا طواف افاضہ کیا اور طواف کے دوران  اس کا وضو ٹوٹ گیا چنانچہ اس نے جا کر وضو کیا اور نئے سرے سے طواف شروع کرنے کی بجائے  اپنے بقیہ طواف کو مکمل کر لیا، اس کا یہ نظریہ تھا کہ ایسا کرنا صحیح ہے، تو اب اسے کیا کرنا ہوگا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"دورانِ طواف وضو ٹوٹ گیا اور پھر  جا کر وضو کر کے آیا اس کے بارے میں اگر ہم یہ کہیں کہ طواف  کیلئے وضو شرط ہے تو جس طواف میں وضو ٹوٹ گیا تو وہ طواف باطل ہے، چنانچہ وضو کے بعد والے طواف کو پہلے حصے کیساتھ ملانا درست نہیں ہے، لہذا اس نے ابھی تک طواف افاضہ نہیں کیا۔

اور اگر یہ کہیں کہ طواف کیلئے وضو کرنا شرط نہیں ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ: وضو کیلئے پانی کی تلاش میں کتنی دیر لگی؟ چنانچہ اگر زیادہ دیر لگی تو اس کا طواف صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ  طواف میں تسلسل  ہونا ضروری ہے، اور اگر پانی قریب ہی مل گیا اور جلدی سے وضو کر کے طواف مکمل کیا تو اس کا طواف صحیح ہے" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل عثیمین" (22/ 357)

اور عام طور پر حج کے دنوں میں رش کے وقت بیت الخلاء  جانے  کیلئے لمبا وقت  درکار ہوتا ہے ، جس سے طواف کا تسلسل برقرار نہیں رہتا، اس لیے وضو ٹوٹنے سے پہلے والے چکروں کو شامل کرنا صحیح نہیں ہے۔

مذکورہ تفصیل کی بنا پر:
"اگر آپ نے ابھی تک طواف افاضہ دوبارہ نہیں کیا تو آپ کا حج مکمل نہیں ہے، آپ پر مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرنا لازم ہے؛ کیونکہ طواف افاضہ حج کا رکن ہے اور لازمی طور پر اسے کرنا ہوتا ہے۔

لیکن اگر آپ نے یہ عمل کسی عالم کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے کیا ہے تو ایسی صورت میں آپ کے ذمہ کچھ نہیں ہے۔

مزید کیلئے آپ فتوی نمبر: (49012) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات