سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اشعری کون ہیں؟ اور کیا وہ اہل سنت میں شامل ہیں؟

سوال

اشعری کون ہیں؟ کیا وہ اہل سنت میں سے ہیں؟ اور کیا یہ بات درست ہے کہ بہت سے علمائے کرام اشعری منہج کے پیروکار ہیں، جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اشعری فرقہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی جانب منسوب ہے، یہ پہلے گزر چکا ہے کہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ متعدد عقدی مراحل سے گزرے ہیں، آپ ابتدا میں معتزلی تھے اور اسی مذہب پر چالیس سال گزار دئیے ، پھر اعتزالی مذہب کے بعد عبد اللہ بن سعید بن کلّاب کی رائے اور مذہب سے متاثر ہو گئے، یہ ان کا دوسرا مرحلہ تھا، اور امام احمد بن حنبل عبد اللہ بن سعید بن کلّاب اور اس کے شاگردوں مثلاً: حارث وغیرہ کے سخت گیر مخالفت تھے، جیسے کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل کے بارے میں واضح کیا ہے۔

مزید کیلیے " سير أعلام النبلاء " (14/380) ، اور امام ابن تیمیہ کی کتاب: " درء تعارض العقل والنقل"کا مطالعہ فرمائیں۔

پھر علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے ابن کلّاب کے موقف سے رجوع کر کے تیسرے مرحلے یعنی اہل سنت و الجماعت کا مکمل عقیدہ اپنایا تھا یا نہیں؟

تو کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اہل سنت کا عقیدہ اپنا لیا تھا، یہ موقف حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور معاصر علمائے کرام میں سے حافظ حکمی رحمہ اللہ کا موقف ہے۔

انہوں نے اس بات کی تائید کیلیے ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی آخری کتاب "الابانہ" سے اقتباس لیے ہیں، اس کتاب میں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس موقف کو ہم نے اپنایا ہے اور جس عقیدے کے ہم پیروکار ہیں وہ یہ ہے: اللہ تعالی کی کتاب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ، اور صحابہ کرام ، تابعین  اور محدثین کرام نے جو ہم تک پہنچایا ہے اس پر مضبوطی سے کار بند ہیں، ہم اسی عقیدے کے قائل ہیں جو ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل -اللہ تعالی انہیں خوش و خرم رکھے، ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے- کا عقیدہ تھا، جو عقیدہ ان کے عقیدے کے مخالف ہے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں؛ کیونکہ امام احمد فاضل امام اور کامل سربراہ ہیں، آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے حق واضح فرمایا، گمراہی کا قلع قمع کیا اور صحیح منہج واضح کیا، آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے بدعتی لوگوں کی بدعات ، گمراہوں کی گمراہیاں اور شکوک پیدا کرنے والوں کے شک کی بیخ کنی فرمائی، پیشوا، محترم ، معزز  اور عظیم اہل دانش امام صاحب پر اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں" انتہی
ماخوذ از: "الابانہ " صفحہ: (20)

اس تحریر میں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی جانب سے دو ٹوک لفظوں میں صراحت ہے کہ انہوں نے سلف کے عقیدے کو اپنا لیا تھا، ان کے زمانے میں جس کا بیڑا اٹھانے والوں میں امام احمد سرِ فہرست تھے، انہوں نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ وہ وہی بات کرتے ہیں جو امام احمد کہتے ہیں، وہ ان کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

امام احمد خود بھی کلابی گروہ کے شدید مخالف تھے، یہی وجہ ہے کہ حارث محاسبی کو انہوں نے کلابی ہونے کی وجہ سے ہی چھوڑ دیا تھا۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ:

ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کلابی مذہب سے مکمل رجوع نہیں کر پائے تھے، ہاں البتہ وہ بہت سے مسائل میں اہل سنت کے قریب ہو گئے تھے۔

اس موقف کو ابن تیمیہ، ابن قیم  اور دیگر اہل علم -رحمہم اللہ جمیعا-نے راجح قرار دیا ہے کہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ اگرچہ اپنی کتاب الابانہ  میں بہت سے مسائل کے اندر اہل سنت کے قریب ہو گئے تھے، تاہم پھر بھی ابن کلاب کی کچھ چیزیں ان میں باقی رہ گئیں تھیں۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[ابو الحسن] اشعری اگرچہ وہ معتزلیوں کے شاگردوں میں سے تھے، لیکن وہ جبائی کے شاگرد بھی تھے، وہ ابن کلاب کی جانب رجحان اور میلان رکھتے تھے، انہوں نے زکریا ساجی سے اصول حدیث بصرہ میں پڑھے، پھر جب بغداد آئے اور وہاں کے حنبلی اہل علم سے دیگر علوم بھی حاصل کئے، بغداد کا دور ان کا آخری مرحلہ تھا، جیسے کہ انہوں نے خود اپنی کتب میں اس کا ذکر کیا ہے اسی طرح ان کے شاگرد بھی ان کے بارے میں یہی بیان کرتے ہیں۔" انتہی
" مجموع الفتاوى " (3/228)

مزید کیلیے آپ " موقف ابن تيمية من الأشاعرة " از شیخ : عبد الرحمن المحمود (1/390) کا مطالعہ بھی کریں۔

متاخر اشعری مکتب فکر کے لوگ اکثر مسائل میں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے موقف پر نہیں چلتے، بلکہ انہوں نے اپنے عقائد کو بہت سے جہمی اور معتزلی عقائد سے خلط ملط کر دیا ہے، بلکہ فلسفی فکر کو بھی عقائد میں ڈال دیا ہے؛ انہوں نے بہت سے مسائل میں اشعری رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہوئی ہے۔

آج کل کے اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ: اللہ تعالی کی متعدد صفات، اللہ تعالی کا آسمان پر مستوی ہونا، اللہ تعالی کی صفت علو، نزول، ہاتھ، آنکھ، قدم، کلام ان تمام صفات میں انہوں نے ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہوئی ہے۔

دوم:

"اہل سنت" کا اطلاق دو اعتبار سے ہوتا ہے:

1- اس لفظ کا اطلاق رافضی مکتب فکر کے مقابلے میں بولا جائے، تو اس اعتبار سے اشعری، ماتریدی وغیرہ اہل سنت میں شامل ہیں، بلکہ اس اعتبار سے معتزلی بھی اہل سنت میں شامل ہیں۔

2- اہل سنت کا اطلاق "اہل بدعت" کے مقابلے میں بولا جائے اور اس سے مراد سلف صالحین اور محدثین کرام سے ثابت شدہ عقیدہ اپنانے والے لوگ لیے جائیں تو پھر اس میں  اشعری اور دیگر کلامی فرقوں میں ملوث افراد جنہوں نے اپنے عقائد میں بدعتی امور شامل کر لیے وہ شامل نہیں ہوں گے؛ کیونکہ انہوں نے بہت سے عقائد اور مسائل میں اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔

اور متاخر اشعری مکتب فکر کے لوگ: تقدیر کے معاملے میں جبری ہیں، ایمان کے متعلق مرجئی ہیں ، صفات کے معاملے میں معطلی ہیں وہ سات صفاتِ باری تعالی کے علاوہ کوئی صفت نہیں مانتے؛ صرف اس لیے کہ ان کے مطابق ان سات صفات کے علاوہ صفات کو عقل تسلیم نہیں کرتی، وہ اللہ تعالی کا آسمان پر مستوی ہونا تسلیم نہیں کرتے، وہ اللہ تعالی کا مخلوق سے بلند ہونا نہیں مانتے اور وہ کہتے ہیں کہ: وہ اس عالم کے اندر ہے نہ باہر، اوپر ہے نہ نیچے۔۔۔ اور اس کے علاوہ ان کے اور بھی متناقض نظریات ہیں تو ہم انہیں اہل سنت کس طرح مان لیں؟!

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے تینوں خلفائے راشدین کی خلافت کو تسلیم کیا، چنانچہ اس میں رافضی لوگوں کے علاوہ تمام گروہ شامل ہو جائیں گے ۔
اور بسا اوقات اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا عقیدہ محدثین اور خالص سنت پر مبنی ہے، چنانچہ پھر اس لفظ کے تحت وہی لوگ آئیں گے جو اللہ تعالی کیلیے صفاتِ الہی ثابت کرتے ہیں" انتہی
" منہاج السنہ " (2/221)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب اہل سنت کا لفظ رافضی مکتب فکر کے مقابلے میں بولا جائے تو اہل سنت میں معتزلی بھی شامل ہیں، ان میں اشعری بھی شامل ہیں، چنانچہ اہل سنت میں ہر وہ گروہ شامل ہے جو کفریہ بدعت  کے مرتکب نہیں ہوئے۔

لیکن اگر ہم یہ بتلانا چاہیں کہ اہل سنت کون ہیں؟ تو پھر ہم کہیں گے: حقیقی اہل سنت سے مراد سلف صالحین ہیں  جو کہ سنت اور صحیح عقیدے پر متحد ہوئے اور انہی کو مضبوطی سے تھاما، تو اس معنی اور مفہوم کے مطابق اس میں اشعری، معتزلی اور جہمی وغیرہ اہل سنت میں شامل نہیں ہوں گے" انتہی
" الشرح الممتع " (11/306)

سوم:

اشعری مذہب کی جانب صرف ان حضرات کو منسوب کرنا درست ہے جو مکمل طور پر عقیدے کے مسائل میں ان کے منہج پر چلے  ، البتہ اگر کوئی  چند مسائل میں ان کی جانب رجحان رکھے تو اسے اشعری مذہب کی جانب منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ حافظ نووی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: 
"کیا یہ درست ہے کہ ہم ان دونوں اہل علم اور دیگر انہی جیسے افراد کو اشعری لوگوں کی جانب منسوب کر دیں؟ اور کہیں کہ یہ اشعری تھے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: نہیں؛ کیونکہ اشعریت ایک مستقل مذہب ہے، اسما و صفات، ایمان اور آخرت کے بارے میں ان کا الگ تھلگ وجود ہے۔
ان کے مذہب کے بارے میں ہمارے بھائی سفر الحوالی نے بہت ہی خوب لکھا ہے؛ کیونکہ بہت سے لوگ ان کے بارے میں سمجھتے ہی نہیں ہیں، لیکن وہ صفات کے مسائل میں سلف صالحین کے مخالف ہیں، ان [نووی اور ابن حجر رحمہما اللہ]کے [اشعریت سے]اختلافات بھی بہت ہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص اسما و صفات کے مسائل میں کوئی ایسی بات کہہ دے جو اشعریت کے مطابق ہو تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ایسی بات کہنے والا اشعری ہو گیا ہے، آپ خود ہی بتلائیں: کہ اگر کسی حنبلی شخص کو دیکھیں کہ وہ کسی مسئلے میں شافعی مذہب کی بات کو صحیح مانتا ہے تو کیا وہ حنبلی شافعی ہو گیا؟!" انتہی
" شرح الأربعين النووية " (ص 290)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسی طرح کہتے ہیں کہ:
"خاص طور پر ان دونوں [یعنی: ابن حجر اور نووی رحمہما اللہ]اہل علم  نے احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو کچھ پیش کیا ہے مجھے آج تک ان جیسی خدمات پیش کرنے والا نظر نہیں آیا، نیز آپ کو یہ بھی محسوس ہو گا کہ اللہ تعالی نے ان کی کاوشوں کو قبول فرما لیا ہے -میں اللہ تعالی پر قسم تو نہیں ڈال سکتاکہ ان دونوں کی مؤلفات کو لوگوں میں کس قدر  پذیرائی ملی،تاہم یہ کہہ سکتا ہوں کہ  اہل علم نے ان کی کتابوں سے خوب فائدہ اٹھایا، بلکہ عوام الناس بھی ان سے مستفید ہو رہی ہے، اب خود ہی دیکھ لیں کہ کتاب ریاض الصالحین ہر مجلس میں پڑھی جاتی ہے، ہر مسجد میں اس کا درس ہوتا ہے، لوگوں کو اس سے بہت فائدہ ہو رہا ہے، میری دلی تمنا ہے کہ میری بھی ایسی کوئی کتاب ہو جس سے ہر کوئی اپنی مسجد میں یا گھر میں مستفید ہو" انتہی
" لقاءات الباب المفتوح " ملاقات نمبر: (43)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب