الحمد للہ.
شریعت نے رمضان میں مسافر اور بیمار شخص کیلیے روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی ہے، اسی طرح ایسا بوڑھا شخص جو روزہ نہیں رکھ سکتا اور حاملہ خواتین جنہیں اپنے یا بچے کے بارے میں خدشات لاحق ہوں ، یا دودھ پلاتی خواتین سب کیلیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ؛ کیونکہ انہیں روزہ رکھنے پر بہت زیادہ مشقت، یا نقصان یا موت کا خدشہ ہے۔
لیکن آپ کی بیان کردہ حالت مذکورہ کسی بھی قسم میں داخل نہیں ہوتی اور نہ ہی ان میں سے کسی پر آپ کی صورت حال کو قیاس کیا جا سکتا ہے، کیونکہ آپ کیلیے روزہ رکھنا نقصان دہ حد تک مشقت کا باعث نہیں ہے۔
اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (38532) کا جواب ملاحظہ کریں۔
آپ نے سوال میں ذکر کیا کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے حمل پر اثر پڑتا ہے تو یہ کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی اجازت دی جا سکے، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
پہلی وجہ:
آپ کے پاس ایک رمضان سے لیکر دوسرے رمضان تک 11 ماہ ہیں اور یہ علاج اور بچے کی پیدائش کیلیے محنت کرنے کیلیے کافی وقت ہے۔
دوسری وجہ:
اسی طرح آپ روزہ رکھنے کے دوران کچھ آرام اور کھانے میں ایسے طریقے استعمال کر سکتی ہیں جو آپ کا وزن باقی رکھنے کیلیے معاون ثابت ہو سکتے ہیں، بالکل ایسے ہی آپ روزے کے دوران صرف فرائض کی پابندی کریں اور زیادہ سے زیادہ آرام کریں۔
تیسری وجہ:
اطبا ء کے مطابق بیضہ کو بار آور کرنے کیلیے وزن کا کردار بھی ہے؛
لیکن وزن باقی رکھنے سے یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لازمی طور پر بچہ پیدا
بھی ہو جائے گا؛ کیونکہ یہ سب معاملہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے:
فرمانِ باری تعالی ہے:
(
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ
يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ، أَوْ
يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ
عَلِيمٌ قَدِيرٌ
)
ترجمہ: آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلیے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے ،
جسے چاہتا ہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے عطا کرے، یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا جلا
کر دے ، اور جسے چاہے بانجھ رکھے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔[
الشورى:49 – 50]
اس لیے آپ روزے چھوڑے بغیر ہی ایسے تمام معاون امور اپنائیں جو حمل اور بچے کی پیدائش کیلیے مدد گارثابت ہو سکتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی سے خوب گڑ گڑا کر دعائیں بھی کریں؛ کیونکہ تمام معاملات اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں۔
واللہ اعلم.