الحمد للہ.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے رمضان المبارك ميں روزے كى حالت ميں كھانا پينا اور جماع اور روزہ توڑنے والى ہر چيز كو حرام كيا ہے، اور رمضان المبارك ميں روزے كى حالت ميں جماع كرنے والے مكلف، مقيم اور صحيح جو كہ مريض اور مسافر نہ ہو پر كفارہ واجب كيا ہے، جو كہ ايك غلام آزاد كرنا، اگر يہ نہ ملے تو مسلسل دو ماہ كے روزے ركھنا، اور اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلانا، ہر مسكين كو علاقے كى غذا ميں سے نصف صاع ديا جائے.
اور رمضان ميں روزے كى حالت ميں جماع كرنے والا شخص اگر صحيح مقيم اور بالغ ہونے كى بنا پر روزہ فرض ہونے والوں ميں سے ہو اور اسے حكم كا علم نہ ہو جہالت كى بنا پر اس نے جماع كر ليا تو اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:
بعض علماء كا كہنا ہے كہ: اس پر كفارہ لازم آتا ہے، كيونكہ اس نے دين كو سيكھنے اور سوال كرنے ميں كوتاہى كى ہے.
اور بعض علماء كا كہنا ہے كہ: جہالت كى وجہ سے اس پر كفارہ نہيں ہے، تو اس سے آپ كو علم ہوا ہو گا كہ احتياط اسى ميں ہے كہ كفارہ ديا جائے كيونكہ آپ نے ان اشياء كے بارہ ميں سوال كرنے سے كوتاہى كى ہے جو آپ پر حرام تھيں، اور آپ وہ كچھ كر ليا جس كے مرتكب ہو چكے ہيں، اور اگر آپ غلام آزاد كرنے اور روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتے تو پھر ہر اس دن كے بدلے جس ميں آپ نے جماع كيا ہے آپ كے ليے ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلانا كافى ہو گا.
لہذا اگر دو دن جماع كيا ہے تو دو كفارے ہيں، اور اگر تين دن كيا ہے تو پھر تين كفارے، اسى طرح ہر وہ دن جس ميں جماع كيا ہے اس كے بدلے ميں ايك كفارہ ہے.
اور رہا مسئلہ يہ كہ ايك ہى دن ميں كئى بار جماع كرنے كا تو اس ميں ايك ہى كفارہ كافى ہے، اس ميں آپ كے ليے احتياط اور بہترى اور برى الذمہ ہے، اور اہل علم كے اختلاف سے بھى نكلا جا سكتا ہے، اور اپنے روزے كے نقصان كو بھى پورا كيا جا سكتا ہے.
اور اگر آپ كو ان ايام كى تعداد كا علم نہيں رہا جن ميں جماع كيا تھا تو پھر آپ احتياط سے كام ليں اور زيادہ ايام كو ليں، يعنى اگر يہ شك ہو كہ تين دن ہيں يا چار تو آپ انہيں چار يوم ركھيں، ليكن آپ كے ليے تاكيد اس ميں ہے جس پر آپ كو يقين ہو.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ان اعمال كى توفيق عطا فرمائے جس ميں اس كى رضا و خوشنودى، اور برى الذمہ ہو.
واللہ اعلم .