الحمد للہ.
اول:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: “ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ یا مکہ کے کسی باغ میں گئے تو وہاں دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، انہیں کسی بہت ہی سنگین گناہ میں عذاب نہیں دیا جا رہا) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بالکل ، ان میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا، جبکہ دوسرا شخص چغل خور تھا۔)” اس حدیث کو امام بخاری: (216) اور مسلم : (292) نے روایت کیا ہے۔
ابن دقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا سیاق اس بات کی دلیل ہے کہ عذاب قبر اور پیشاب کا آپس میں تعلق ہے۔ ” ختم شد
“فتح الباری” (1/ 318)
علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے المعجم الکبیر: (11104) میں اور امام دارقطنی اپنی سنن : (466) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً عام طور پر عذابِ قبر پیشاب سے ہوتا ہے ، اس لیے اس سے بچو۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح الجامع : (3002) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح امام احمد: (8331) نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اکثر عذاب قبر پیشاب سے ہوتا ہے۔) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے بخاری و مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے۔
دوم:
مذی کی نجاست، درمیانے درجے کی نجاست ہے، یعنی بول و براز جیسی مغلظ نجاست نہیں ہے؛ اسی وجہ سے صرف شرمگاہ دھونے پر اکتفا کیا جاتا ہے، اور جہاں کپڑے پر لگی ہو وہاں پانی چھڑکنا کافی سمجھا جاتا ہے، جہاں مذی لگی ہوئی ہو اسے مل کر دھونا لازم نہیں ہے، جبکہ پیشاب جیسی نجاست مغلظہ میں کپڑے کو دھونا لازم ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (2458) کا جواب ملاحظہ کریں۔
سوم:
مذی کی نجاست کو بول و براز کی نجاست کے مقابلے میں دیکھا جائے تو اس میں قدرے تخفیف ہے، لیکن اس تخفیف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مذی کے متعلق سستی کا شکار ہوں یا بالکل بھی توجہ نہ دیں، یا کپڑے پر لگی بھی ہو تو اسے زائل نہ کریں، اور کپڑوں یا بدن پر مذی لگی بھی ہو تب بھی ان میں نماز ادا کرے؛ تو یہ سب حرام کام ہیں ایسے کرنا جائز نہیں ہے، اس کی وجہ سے اس کی نمازیں بھی باطل ہوں گی۔
کچھ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ: بدن یا کپڑے پر نجاست لگی ہونے کی وجہ سے نماز باطل ہو جانے کا حکم در حقیقت پیشاب کے بارے میں سختی کی وجہ سے ہے، اور قبر میں عذاب کی وعید پیشاب سے بچاؤ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ان دونوں کاموں کے کبیرہ گناہوں میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ: پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے لازم یہ آئے گا کہ نماز بھی باطل ہو جائے، لہذا پیشاب سے نہ بچنا بلا شبہ کبیرہ گناہ ہے۔۔” ختم شد
” شرح النووي” (3/201)
علامہ مناوی رحمہ اللہ ” فيض القدير ” (2/581) میں کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: إن عامة عذاب القبر یعنی اکثر اور زیادہ تر عذاب قبر ۔
من البول یعنی پیشاب سے بچتے ہوئے کوتاہی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے؛ کیونکہ پیشاب کے چھینٹوں سے طہارت نماز سے پہلے ہی مطلوب ہے، پھر نماز ہی افضل ترین بدنی عبادت ہے، دنیا میں ایمان لانے کے بعد سب سے پہلے جس کام کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ یہی نماز ہی ہے، اور پھر قیامت کے دن سب سے پہلے جس کام کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہی ہو گی۔
اب چونکہ قبر بھی آخرت کی پہلی سیڑھی ہے، تو قبر آخرت سے پہلے ہوئی اس لیے جس نے نماز سے پہلے طہارت میں کوتاہی کی اس کو آخرت سے پہلے قبر میں عذاب دیا جائے۔” ختم شد
علامہ کشمیری رحمہ اللہ ” العرف الشذي ” (1/104) میں کہتے ہیں:
“اگر کہا جائے کہ: محض چھینٹوں کا پڑنا اتنا بڑا گناہ تو نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ممکن ہے کہ یہ شخص چھینٹے پڑے ہوئے لباس کے ساتھ نماز ادا کیا کرتا تھا، تو یہ کبیرہ بن گیا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: صغیرہ گناہوں کو تسلسل کے ساتھ کرنا بھی کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔۔۔۔” ختم شد
بہ ہر حال ؛ مذی سے طہارت حاصل کرنے میں سستی اور کوتاہی کو پیشاب سے طہارت حاصل کرنے کی سستی اور کوتاہی پر قیاس کرنا اور اسے عذاب قبر کا سبب قرار دینا صحیح ہو یا نہ ہو ؛ کیونکہ وعد اور وعید میں قیاس کرنا جائز نہیں ہوتا، بلکہ یہ دونوں چیزیں توقیفی ہیں۔
مندرجہ بالا دونوں اقوال میں سے کوئی بھی موقف اپنائیں، ضروری اور لازمی امر یہ ہے کہ مذی کی نجاست سے طہارت حاصل کرنا واجب ہے، اور مذی کے معاملے میں سستی کرنا جائز نہیں ہے، اور یہ بھی واضح رہے کہ مذی کے اثرات سے طہارت حاصل کرنا نماز کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، جیسے کہ دیگر تمام نجاستوں کے بارے میں یہی شرط پائی جاتی ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (65731) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم