الحمد للہ.
تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلیے والد اپنے بیٹے کو جو رقم دیتا ہے وہ عام طور پر والد کی طرف سے بطورِ ملکیت نہیں دی جاتی، اور ایسی رقم اپنے بیٹے کو دیتے ہوئے والد کا یہ ارادہ نہیں ہوتا کہ بیٹے کی مرضی جیسے مرضی خرچ کرے، بلکہ ایسی رقم واجب نفقہ کی مد میں شمار ہوتی ہے جس کیلیے رقم وصول کرنے والے کا ضرورت مند ہونا شرط ہوتا ہے، چنانچہ بیٹے کو ملنے والی یہ رقم ایک اعتبار سے خرچہ بھی ہے لیکن ساتھ میں اس کا مصرف بھی والد کی طرف سے معین ہے اور وہ ہے جامعہ کی فیس۔
علمائے کرام نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ : اگر کسی شخص کو ایک خاص جگہ پر رقم خرچ کرنے کیلیے دی جائے تو اس کیلیے کسی دوسری جگہ اس کا خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔
جیسے کہ پہلے فتوی نمبر: (191708) میں گزر چکا ہے۔
چنانچہ جو ماجرا ہوا ہے اس کی خبر والد کو دینا آپ پر واجب ہے؛ کیونکہ یہ والد کے ساتھ حسن سلوک کا تقاضا ہے، اور آپ کی امانتداری کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جو آپ کو ان پیسوں کو تعلیمی ضروریات میں ہی خرچ کرنے پر اکسا رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ کے دل میں اس معاملے کے متعلق کھٹکا لگنا شروع ہوا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی فطرت سلامت ہے، اور آپ اللہ تعالی کی رضا کا موجب بننے والے کاموں کی جستجو میں رہتے ہیں، اس لیے آپ پر واجب ہے کہ اپنے اس معاملے کو ٹھیک کر لیں، اللہ تعالی معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
واللہ اعلم.