الحمد للہ.
اول:
اچھے دوستوں کے ساتھ رہنا شرعی طور پر مطلوب ہے، اس لیے مسلمان کو اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے؛ کیونکہ اچھی صحبت انسان کے لیے برے فتنوں سے تحفظ کا باعث ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم مومن کو ہی اپنا ساتھی بناؤ، اور تمہارا کھانا متقی شخص ہی کھائے۔) اس حدیث کو ترمذی: (2395) ، ابو داود: (4832)نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مذکورہ حدیث میں کھانے سے مراد کھانے کی دعوت ہے، کسی کی بھوک کی وجہ سے کھانا کھلانا اس حدیث میں شامل نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
ترجمہ: اور وہ کھانے کی طلب کے باوجود مسکین، یتیم اور حربی قیدی کو کھلاتے ہیں۔ [الدھر: 8]
اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اہل ایمان کے ہاں حربی قیدی صرف کافر ہی ہوتے تھے مومن یا متقی لوگ نہیں ہوتے تھے۔
غیر متقی شخص کی صحبت سے خبردار اور اسے کھانے پلانے سے ڈانٹ اس لیے پلائی گئی کہ ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے دل میں ان کے لیے الفت اور محبت پیدا ہو جائے گی۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ: جو شخص متقی یا پرہیز گار نہ ہو تو اس کے ساتھ الفت والا تعلق مت رکھیں، نہ ہی اسے اپنا دوست بنائیں کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھائیں اور پئیں۔" ختم شد
ماخوذ از: " معالم السنن " (4 / 115)
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اچھے اور برے دوست کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے جیسی ہے۔ کستوری بیچنے والا آپ کو خود ہی کستوری لگا دے گا، یا آپ اس سے خرید لو گے، یا کم از کم خوشبو ہی پا لو گے۔ جبکہ بھٹی پھونکنے والا شخص یا تو آپ کے کپڑے جلا دے گا، یا کم از کم اس سے بد بو پاؤ گے۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (5534) اور مسلم : (2628)نے روایت کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں نیک، اہل خیر، اچھے ، اعلی اخلاق کے مالک، پرہیز گار، صاحب علم و ادب افراد کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت ہے، جبکہ برے، بدعتی، غیبت کرنے والے یا بہت زیادہ گناہ کرنے والوں ، یا نکمے لوگوں ، یا اسی طرح کی کوئی اور منفی صفات کے حامل لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے ممانعت ہے۔" ختم شد
" شرح صحيح مسلم " (16 / 178)
اس لیے محترم بھائی اگر ممکن ہو سکے تو آپ اچھے دوستوں کو تلاش کر کے ان کے ساتھ اپنی رہائش رکھیں۔
دوم:
اگر آپ کو رہائش کے لیے یہی جگہ میسر ہو کہیں اور جگہ نہ ملے تو پھر آپ خود تقوی الہی اپنائیں تو آپ ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں، اس لیے آپ ان کے ساتھ کسی بری محفل میں نہ بیٹھیں، اور اگر آپ کے سامنے کوئی غلط حرکت کریں تو آپ انہیں روکیں اور نصیحت کریں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ، وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَكِن ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
ترجمہ: اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں۔ تو ان کے پاس بیٹھنے سے اعراض کیجیے تا آں کہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں۔ اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آ جانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ [68] ان ظالموں کے حساب میں کسی چیز کی ذمہ داری ان لوگوں پر نہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ مگر نصیحت کرنا ان پر فرض ہے تاکہ وہ غلط کاموں سے بچیں ۔[الانعام: 68-69]
شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ ممانعت اور حرمت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو ان کے ساتھ بیٹھ کر تقوی الہی نہیں اپناتا، مثلاً: ایک شخص ان کے ساتھ بیٹھ کر انہی جیسی حرام باتیں اور کام کرنے لگتا ہے، یا ان کے غلط کام کرنے پر خاموشی سادھ لیتا ہے، انہیں روکتا بھی نہیں ہے۔ تاہم اگر تقوی الہی اپناتا ہے کہ انہیں اچھے کام کا حکم دے، برے کام اور کلام سے انہیں روکے، اور پھر اس کے روکنے کی وجہ سے برائی ختم یا کم ہو جائے تو ایسے شخص کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی حرج یا گناہ نہیں ہے، اسی لیے فرمایا:
وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَكِن ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
ترجمہ: ان ظالموں کے حساب میں کسی چیز کی ذمہ داری ان لوگوں پر نہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ مگر نصیحت کرنا ان پر فرض ہے تاکہ وہ غلط کاموں سے بچیں ۔[الانعام: 68-69] " ختم شد
ماخوذ از: تفسیر سعدی: (260)
لیکن اگر وہ آپ کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے تو پھر کیا حکم ہے؟
ایسی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ آپ کو جب بھی کوئی مناسب موقع ملے تو انہیں نصیحت کرتے رہیں، تاہم نصیحت اتنی زیادہ نہ کریں کہ وہ آپ سے اکتا جائیں، یا آپ کی باتوں کو ہی ناپسند کرنا شروع کر دیں۔
ان کے لیے اللہ تعالی سے کثرت کے ساتھ ہدایت کی دعائیں کریں۔
چنانچہ اگر آپ یہ سب کام کرتے ہیں تو آپ نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے اور آپ کو کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ [164] فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
ترجمہ: اور جب ان میں سے کچھ لوگوں نے دوسروں سے کہا : "تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے؟" تو انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ ہم تمہارے پروردگار کے ہاں معذرت کر سکیں اور اس لئے بھی کہ شاید وہ نافرمانی سے بچیں [164] پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو فراموش ہی کر دیا جو انہیں کی جا رہی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور ان لوگوں کو جو ظالم تھے، ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے بہت برے عذاب میں پکڑ لیا۔ [الاعراف: 164 – 165]
اور وہ اپنی اسی حالت پر برقرار رہیں تو پھر آپ ان کے ساتھ ضرورت سے زیادہ مت بیٹھیں، آپ اپنا دن اپنی تعلیمی سرگرمیوں اور یونیورسٹی کی لائبریری میں گزاریں؛ کیونکہ اسی کام کے لیے آپ نے بیرون ملک سفر کیا ہے، اپنی رہائش پر صرف آرام کرنے کے لیے آیا کریں۔
ہم آپ کو سوال نمبر: (47425 ) (50745 ) کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں آپ کے لیے کافی نصیحتیں ہیں۔
واللہ اعلم