الحمد للہ.
علمائے کرام نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ امام کا تکبیرات اور سلام کو بلند آواز سے کہنا سنت ہے یعنی: واجب یا رکن نہیں ہے۔
چنانچہ اس بنا پر ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہو گی جو نماز میں تکبیرات یا سلام بلند آواز سے نہیں کہتا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام کیلیے "سمع اللہ لمن حمدہ"جہری کہنا سنت ہے اسی طرح تکبیرات کو بلندی آواز
سے کہنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ یہ ایک رکن سے دوسرے رکن میں جاتے وقت کا ذکر ہے ؛
چنانچہ تکبیرات کی طرح جہری "سمع اللہ لمن حمدہ" کہنا بھی شرعی عمل ہے" انتہی
" المغنی " (1/301)
اسی طرح شیخ مصطفی رحیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام کیلیے تکبیرات جہری یعنی بلند آواز سے کہنا مسنون ہے، تا کہ مقتدی امام کی
اقتدا آسانی سے کر سکے؛ دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ: (جب
امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو) اسی طرح "سمع اللہ لمن حمدہ" اور دائیں جانب
سلام کہنا بھی مسنون ہے؛ تا کہ مقتدی امام کی اقتدا کر سکے۔۔۔ اسی طرح جہری نماز
میں بلند آواز کے ساتھ قراءت کرنا بھی مسنون ہے اس کیلیے امام تکبیرات، تسمیع [یعنی:
سمع اللہ لمن حمدہ کہنا] دائیں جانب سلام، اور قراءت کی آواز اپنے مقتدیوں کو سنائے
؛ تا کہ مقتدی اس کی اقتدا کر سکیں، اور امام کی قراءت سنیں" انتہی
" مطالب اولی النهى " (1/420)
اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ جس شخص کے پیچھے آپ نے نماز ادا کی ہے اس نے آپ کی
امامت کی نیت ہی نہیں کی ؛ اسی لیے اس نے تکبیرات اور سلام بلند آواز سے نہیں کہے
تو پھر بھی راجح موقف کے مطابق اس کے پیچھے نماز درست ہوگی؛ کیونکہ امامت کروانے کی
نیت کرنا واجب نہیں ہے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چوتھی صورت یہ ہے کہ: مقتدی اقتدا کرنے کی نیت تو کرے لیکن امام امامت کروانے کی
نیت نہ کرے تو صرف امام کی نماز صحیح ہوگی لیکن مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ:
ایک شخص مسجد میں آئے اور کسی شخص کے پیچھے اس نیت سے کھڑا ہو جائے کہ وہ امام ہے
لیکن پہلا شخص امامت کی نیت نہ کرے تو پہلے شخص کی نماز تو درست ہوگی لیکن دوسرے
شخص کی نماز درست نہیں ہوگی ؛ کیونکہ دوسرے شخص نے ایسے شخص کو اپنا امام بنایا جو
اس کا امام تھا ہی نہیں ، حنبلی مذہب میں یہی موقف ہے، نیز یہ حنبلی مذہب کا
انفرادی مسئلہ ہے جیسے کہ الانصاف میں ہے۔
اس مسئلہ میں دوسرا موقف یہ ہے کہ: اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اپنا امام بنا لیتا ہے جس نے امامت کی نیت ہی نہیں کی تو ایسا کرنا صحیح ہے۔
اس موقف کے قائلین دلیل یہ دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی کسی رات
میں قیام فرما رہے تھے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جمع ہو کر نماز ادا
کرنے لگے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا ادراک نہیں تھا، پھر آپ نے
دوسری اور تیسری رات بھی انہیں نماز پڑھائی اور آپ کو ان کے بارے میں علم ہو چکا
تھا، لیکن آپ چوتھے دن امام سے پیچھے ہی رہے مبادا یہ نماز ان پر فرض ہی نہ ہو جائے،
یہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ مقصود
یہ ہے کہ امام کی اتباع اور اقتدا ہو اور اس صورت میں اس کی اقتدا موجود ہے۔۔۔"
انتہی
" الشرح الممتع " (2/306)
واللہ اعلم.