الحمد للہ.
اول:
سماجی انشورنس : انشورنس کی یہ قسم حکومت کی جانب سے ہوتی ہے اور اس کا قیام منافع کمانے کی غرض سے نہیں ہوتا، اس انشورنس میں مالی تعاون اس انشورنس کے ممبران، حکومت اور کمپنی تینوں کرتے ہیں، کچھ حالات میں ان تینوں میں سے کوئی مالی تعاون سے مستثنی بھی ہوتا ہے، چنانچہ ہر ممبر کو مطلوبہ شرائط پوری ہونے پر معاوضہ حاصل ہوتا ہے۔
اس انشورنس کی بہت سی صورتیں ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
- سماجی تحفظ (Social security) : اس میں ملازمین کو بیماری، معذوری یا کمزوری ، یا بڑھاپے کی عمر میں پہنچنے پر معاوضہ ملتا ہے، لیکن یہ معاوضہ ماہانہ تنخواہ سے کٹوتی کے عوض ہوتا ہے۔
- ریٹائر منٹ نظام: اس میں حکومتی سطح پر ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں میں سے معمولی سی رقم منہا کر کے مدت ملازمت پوری کرنے یا مقررہ عمر تک پہنچنے کے بعد یک مشت یہ رقم ملازم کو دے دی جاتی ہے [اسے ہمارے ہاں پنشن کہتے ہیں]
- طبی انشورنس: اس کے تحت حکومت بیمار مریضوں کیلیے علاج معالجے کی سہولیات پیش کرتی ہے اور اس کے عوض تنخواہ میں سے ماہانہ کٹوتی کرتی ہے۔
- کچھ ممالک میں بیروزگاری الاؤنس بھی اسی کی ایک شکل ہے، اس میں بے روزگار افراد کو روزگار کی تلاش تک مناسب مقدار میں مالی تعاون فراہم کیا جاتا ہے، یا پھر جلد وفات ہونے کی وجہ سے متاثرہ خاندانوں کیلیے انشورنس ، یا پھر دوران ملازمت لگنے والی چوٹ کیلیے انشورنس بھی اسی میں شامل ہیں۔
چنانچہ "سماجی انشورنس" حقیقت میں سماجی بہبود پر مبنی ہوتی ہے، اس میں محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے والوں کو مستقبل کے منفی خدشات سے تحفظ فراہم کرنا مقصود ہوتا ہے، مثال کے طور پر : اگر انہیں کسی بیماری، بڑھاپے، بے روزگاری یا معذوری کا سامنا کرنا پڑ جائے تو ان کا تعاون اسی انشورنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، عام طور پر یہ انشورنس لازمی اور ضروری ہوتی ہے، اس انشورنس کی اقساط ادا کرنے کیلیے مستفید ہونے والے مزدور سمیت کمپنی اور حکومت تینوں اپنا اپنا مقررہ حصہ ڈالتے ہیں تاہم ادا شدہ اقساط میں حکومت کا حصہ ہمیشہ سب سے زیادہ ہو تا ہے۔
انشورنس کی یہ قسم حکومتی پالیسی کا حصہ ہوتی ہے، چنانچہ حکومت کی جانب سے ہی اس انشورنس کے پروگرام مرتب کیے جاتے ہیں، وہی اس کی حدود کا تعین کرتی ہے؛ تا کہ معاشرے کے تمام طبقات کو فائدہ ہو اور ان کی ترقی و بہبود میں اضافہ ہو، بسا اوقات حکومت خود انشورنس فراہم کرنے والی بھی بن جاتی ہے، اس کی مثال میں انشورنس کی یہ اقسام بھی آتی ہیں: پنشن اسکیم، سماجی تحفظ، اور طبی انشورنس وغیرہ اس کے علاوہ بھی اس کی اقسام ہیں" انتہی
"أبحاث هيئة كبار العلماء" (4/45)
دوم:
ایسی تمام اسکیموں اور انشورنس وغیرہ سے مستفید ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے جن کا انتظام و انصرام اورمالی تعاون حکومت کے ماتحت ہو، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
1- سماجی انشورنس یا سوشل سکیورٹی فنڈ کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ممبران سے اقساط وصول کر کے ان سے فائدہ اٹھایا جائے، بلکہ اس فنڈ کا منافع بھی ان تمام ملازمین کو دے دیا جاتا ہے جو اس کے ماتحت آتے ہیں۔
لیکن کمرشل انشورنس میں ایسا نہیں ہوتا؛ کیونکہ کمرشل انشورنس میں سب سے پہلا ہدف منافع کمانا ہوتا ہے، چنانچہ حاصل ہونے والا منافع انشورنس کمپنی کے حصص مالکان کے کھاتے میں جاتا ہے۔
سپریم علما کونسل کے انشورنس کے متعلق مقالے میں ہے کہ:
"سماجی اور کمرشل انشورنس میں فرق ہے:
کیونکہ سماجی انشورنس یا سوشل سکیورٹی فنڈ میں پہلا ہدف تعاون ہوتا ہے تجارت یا منافع کمانا ہدف نہیں ہوتا، اگر اس میں کوئی ایسی چیز شامل ہو بھی جائے جس کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہوں تو اس سے چھٹکارا پانا ممکن ہوتا ہے۔
البتہ کمرشل انشورنس میں سب سے پہلا ہدف غیر شرعی طریقوں سے منافع کمانا ہوتا ہے ، اور کمرشل انشورنس سود، دھوکا دہی [غرر] اور قمار بازی سے خالی نہیں ہوسکتی کیونکہ کمرشل انشورنس کی بنیاد ہی ان چیزوں پر ہے" انتہی
" أبحاث هيئة كبار العلماء" (4/ 305)
جناب ڈاکٹر علی احمد سالوس کہتے ہیں:
"سماجی انشورنس حقیقت میں کسی ایک شخص کی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے خطرات کا اندیشہ ہو اور اسے کمرشل انشورنس کے زمرے میں شامل کیا جائے، یہ ایک عوامی انشورنس ہوتی ہے جس میں منافع حاصل کرنا ہدف نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ متعدد افراد کا تعاون کیا جائے، چنانچہ کبھی تو ان افراد کی تعداد کئی کروڑ افراد تک بھی پہنچ جاتی ہے، مثال کے طور پر کچھ ممالک اپنے نوجوانوں ، ملازمین اور مزدوروں کی سماجی انشورنس کرتے ہیں جسے عام طور پر پنشن کا نام دیا جاتا ہے، چنانچہ ماہانہ تنخواہ میں سے مخصوص تناسب میں کٹوتی کر کے اسے جمع کیا جاتا ہے ، چنانچہ جب ملازم ریٹائرمنٹ کی حد تک پہنچتا ہے تو اسے پنشن جاری کر دی جاتی ہے یہ ماہانہ شکل میں ہوتی ہے یا یک مشت زندگی گزرانے کیلیے تعاون دے دیا جاتا ہے، اسی میں سوشل سکیورٹی فنڈ اور طبی انشورنس شامل ہے" انتہی
"موسوعة القضايا الفقهية المعاصرة والاقتصاد الإسلامي" (ص372)
2- سماجی تحفظ فنڈ یا سوشل سکیورٹی عوام الناس کا حکومت پر حق ہوتا ہے، جو کہ عوام کو معذوری ، یا بڑھاپے یا بیماری کی صورت میں دیا جاتا ہے، اسی طرح ملازمین کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ کو بھی مالی تعاون دیا جاتا ہے۔
کیونکہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ڈاکٹر وہبہ زحیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حکومت کی جانب سے قائم کردہ سوشل سکیورٹی فنڈ یا پنشن فنڈ یا حکومت کے ما تحت کام کرنے والے مزدور اور ملازمین کی انشورنس وغیرہ میرے مطابق جائز ہیں؛ کیونکہ عام شخص کی بیماری، معذوری اور بڑھاپے کی صورت میں اس کی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسی میں بے روز گاری اور مزدوری کرنے سے معذوری کی حالت میں بھی عوام کی بہبود کا انتظام کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے" انتہی
"الفقه الإسلامي وأدلته" (5/116)
اس لیے حکومت کی جانب سے ادا کی جانے والی وہ رقم جو بعض اوقات ادا شدہ اقساط کی رقم سے زائد ہوتی ہے ، وہ سود نہیں ہے، اور نہ ہی اس میں غرر ہے، بلکہ یہ تو حکومت پر فرض اور قرض ہے، یہ الگ بات ہے کہ ملازم نے اپنی تنخواہ سے ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر حکومت کو کچھ نہ کچھ رقم جمع کروائی اور بقیہ رقم ملازم کو حکومت نے اپنی طرف سے دی۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پنشن میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بیت المال سے ادا ہوتی ہے ، یہ کسی ایک شخص کا دوسرے کے ساتھ معاملہ نہیں ہوتا، کہ ہمیں یہ کہنے کی ضرورت پڑے کہ: اس میں سود پائے جانے کا خدشہ ہے، بلکہ یہ اس ملازم شخص کا ریٹائرمنٹ کے وقت بیت المال سے حق بنتا ہے، اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے" انتہی
" اللقاء الشهري " (58/ 28، مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق
ڈاکٹر وہبہ زحیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حکومت کی جانب سے کی جانے والی ماہانہ کٹوتی کی جانب نہیں دیکھا جائے گا، اسی طرح ان رقوم کو بھی خاطر میں نہیں لایا جائے گا جو کمپنیوں کی جانب سے ماہانہ سوشل سکیورٹی فنڈ کی مد میں جمع کروائی جاتی ہیں، یا جو رقوم مزدور یا ملازمین کی جانب سے ان کے اختیار دینے پر معمولی تناسب کی شکل میں سالانہ منہا کی جاتی ہیں، پھر اس کے بدلے میں ریٹائرمنٹ کے وقت پنشن کی صورت میں ملازمین کو رقم دے دی جاتی ہے، مذکورہ جتنی جانب سے بھی رقوم جمع ہوئی ہیں انہیں سود کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا کہ ملازم یا مزدور نے کم پیسے دیکر زیادہ وصول کیے ہیں ؛ کیونکہ ملازم یا مزدور کو ملنے والی یہ رقم حقیقت میں مالی تعاون ، عطیہ یا تحفہ ہے، جس کی ابتدا ریٹائرمنٹ فنڈ یا سوشل سکیورٹی فنڈ کے تمام ارکان کی جانب سے ہوئی ، اور یہ سب ادارے حکومتی ادارے ہیں" انتہی
"الفقه الإسلامي وأدلته" (5/ 116)
3- سماجی تحفظ فنڈ یا سوشل سکیورٹی فنڈ تعاونی انشورنس سے ملتی جلتی انشورنس ہوتی ہے، اور تعاونی انشورنس کو علمائے کرام نے جائز قرار دیا ہے؛ کیونکہ ملازم اور حکومت کا تعلق باہمی تعاون اور سہارے پر قائم ہوتا ہے، نفع کمانے پر اس تعلق کی بنیاد نہیں ہوتی، نیز سماجی تحفظ فنڈ یا سوشل سکیورٹی فنڈ کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ پورے معاشرے کی بہبود کیلیے مثبت اقدام کئے جائیں، جبکہ حرام کمرشل انشورنس میں اصل ہدف انشورنس کمپنی کا نفع ہوتا ہے۔
ڈاکٹر یوسف شبیلی کہتے ہیں:
"انشورنس کی یہ قسم حقیقت میں تعاونی انشورنس ہے؛ کیونکہ اس میں اصل ہدف نفع کمانا نہیں ہے، اس لیے حکومت اسے چلاتی ہے، یا کوئی جنرل اتھارٹی اسے چلاتی ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخصوص عمر تک پہنچنے والے ملازمین جو بڑھاپے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کر سکتے ان کی مدد کی جائے، اس لیے یہ حقیقت میں تکافل اور تعاون پر مبنی انشورنس ہے، کمرشل انشورنس نہیں ہے" انتہی
" الأسهم والمعاملات المالية المعاصرة" کیسٹ نمبر: (6/ 12)
4- اسی موقف کو ہم عصر اکثر علمائے کرام نے اپنایا ہے، اور ان کی مخالفت میں بہت ہی معمولی تعداد ہے، بلکہ شیخ محمد صدیق ضریر کہتے ہیں کہ:
"جس طبی انشورنس کا نظریہ میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے اس کے متعلق ہم عصر علمائے کرام میں سے میں کسی کو نہیں جانتا جو اس کی مخالفت کرتا ہو، اسی طرح میرے علم میں کسی کا اختلاف نہیں ہے جو کہ سوشل سکیورٹی فنڈ کے جواز کے متعلق ہو، سوشل سکیورٹی فنڈ پر مبنی طبی انشورنس کی بھی یہی صورت حال ہے، نیز متعدد اسلامی کونسلوں نے اس کے جواز پر قرار دادیں پاس کی ہیں، نیز انہیں لوگوں تک پھیلانے کی ترغیب بھی دلائی ہے" انتہی
"مجلة مجمع الفقه الإسلامي" (13/ 1378)
" مجمع البحوث الإسلامية " کے زیر انتظام قاہرہ -مصر – میں 1385 ہجری / 1965ء کو منعقد ہونے والی دوسری کانفرنس میں یہ قرار داد بھی پاس کی گئی تھی کہ: "حکومت کا پنشن نظام اور اس سے ملتے جلتے دیگر ممالک میں رائج سماجی بہبود کے فنڈز ، سماجی انشورنس یہ سب جائز ہیں"
مزید کیلیے دیکھیں: " فقہ النوازل" از: جیزانی(3/ 266)
اسی طرح اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرار دادوں میں یہ بھی ہے [جو کہ سپریم علماء کونسل کی عبارت ہے] کہ: "ریٹائرمنٹ کے وقت دی جانے والی رقم کا حکومت پہلے ہی اقرار کر چکی ہوتی ہے کہ یہ رقم اس نے اپنی رعایا کو دینی ہے؛ کیونکہ حکومت رعایا کی ذمہ دار ہے، نیز یہ رقم دیتے ہوئے حکومت نے ایسے ملازم کا تعاون کیا ہے جس نے قوم کی خدمت کی ہے، چنانچہ حکومت نے اس کیلیے ایک نظام مقرر کر دیا اور اس میں ملازمین کے اہل و عیال کا خیال بھی رکھا گیا ہے، نیز ضرورت بھی ہوتی ہے کہ ایسی صورت حال میں ان کا مالی تعاون کیا جائے۔
اس لیے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقوم حکومت اور ملازمین کے مابین مال کے عوض مال کا لین دین نہیں ہوتا، لہذا پنشن اور کمرشل انشورنس میں یکسانیت نہیں ہے جس میں معاہدہ ہی مال کے بدلے مال کا ہوتا ہے اور ویسے بھی انشورنس کمپنیوں کا ہدف انشورنس طلب کرنے والوں کو اپنے مفاد کیلیے استعمال کرنا ہوتا ہے، انشورنس کمپنیاں انہیں اپنے مفاد کی خاطر اندرون خانہ غیر شرعی طریقے سے استعمال کرتی ہیں۔ پنشن اور انشورنس میں فرق کی وجہ یہ بھی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت ملازم کو دی جانے والی رقوم ایک ایسا حق ہے جو کہ حکومت کی جانب سے اپنے ملازمین کے حق میں تسلیم شدہ ہوتا ہے، حکومت یہ رقوم ایسے شخص کو دیتی ہے جس نے قوم کی خدمت میں زندگی گزاری ہو، چنانچہ اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ، نیز حکومت کے ساتھ جسمانی اور ذہنی تعاون کے بدلے میں اسے یہ رقم دی جاتی ہے؛ کہ عوام کی بہبود کیلیے اس نے اپنا وقت صرف کیا" انتہی
"قرارات المجمع الفقهي الإسلامي" للرابطة (ص: 39) ، "أبحاث هيئة كبار العلماء" (4/313)