الحمد للہ.
اہل کتاب کے علاوہ جتنے بھی مشرکین جانور ذبح کریں تو وہ مردار ہے؛ چاہے وہ حیوان ذبح شدہ ہو اور ماکول اللحم ہو۔
اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے سوال نمبر: (34496) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ماکول اللحم یا غیر ماکول اللحم مردار کی ہڈیوں سے استفادے کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا یہ ہڈیاں پاک ہیں یا ناپاک؟
تو جمہور اہل علم اس کو نجس کہتے ہیں، جبکہ احناف نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے ان کی طہارت کا موقف اپنایا ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مردار جانور کی ہڈیاں نجس ہیں چاہے وہ ماکول اللحم جانور کی ہوں یا غیر ماکول اللحم جانور کی، نیز ان کی ہڈیاں کسی بھی صورت میں پاک نہیں ہوتیں، یہ موقف مالک، شافعی، اور اسحاق کا ہے۔
جبکہ ثوری اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان کے پاک ہونے کے قائل ہیں؛ کیونکہ موت کے اثرات ہڈیوں پر مؤثر نہیں ہوتے اس لیے موت کی وجہ سے ہڈیاں ناپاک نہیں ہوتیں، بالکل ایسے ہی جیسے کہ بال ناپاک نہیں ہوتے۔
ویسے بھی مردار کے گوشت اور جلد کے ناپاک ہونے کی علت یہ ہے کہ ان کا خون اور دیگر رطوبتوں سے تعلق ہوتا ہے، اور یہ دونوں چیزیں ہڈیوں میں نہیں پائیں جاتیں۔ اس مسئلے میں ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (78) قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ
ترجمہ: اس نے کہا کہ: کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا اس حال میں کہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہیں؟ [78] آپ کہہ دیں: انہیں وہی ذات زندہ کرے گی جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کی تخلیق جانتا ہے۔[يس: 78، 79] تو جس چیز کو زندہ کیا جائے تو اس کو موت بھی آتی ہے۔ [اس سے معلوم ہوا کہ ہڈیوں پر بھی موت طاری ہوتی ہے۔ مترجم]
اور ویسے بھی کسی چیز کے زندہ ہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ قوت حس اور درد محسوس کرنے کی صلاحیت موجود ہو، جبکہ ہڈی میں درد محسوس کرنے کی صلاحیت گوشت اور جلد سے زیادہ ہوتی ہے۔۔۔
اور جس چیز میں زندگی پائی جائے اس میں موت سرایت کرتی ہے؛ کیونکہ موت اسی چیز کا نام ہے کہ جہاں زندگی نہ ہو، اور جس چیز میں موت شامل ہو جائے تو وہ [ہڈی]بھی گوشت کی طرح نجس ہو جاتی ہے۔” ختم شد
” المغنی ” (1/54)
اسی موقف کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، دیکھیں: ” الشرح الممتع ” (1/93)
جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے احناف کا موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ:
“مردار جانور کی ہڈی، سینگ اور کُھر یا اسی جیسی دیگر چیزیں مثلاً: سم وغیرہ، بال، پر اور اون وغیرہ سب چیزیں طاہر ہیں، جیسے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے، اور امام مالک کے ساتھ امام احمد کا بھی یہی موقف ہے۔
یہی موقف صحیح ہے؛ کیونکہ چیزوں میں اصل حکم طہارت ہوتا ہے اور ان چیزوں کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اسی طرح یہ چیزیں طیبات میں شامل ہیں خبائث میں سے نہیں ہیں، اس لیے آیت تحلیل میں یہ شامل ہوں گی؛ کیونکہ یہ چیزیں لفظی یا معنوی کسی بھی اعتبار سے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں میں شامل نہیں ہوتیں۔
لفظی اعتبار کی وضاحت یہ ہے کہ: اللہ تعالی کا فرمان ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے۔ [المائدة: 3]اس میں بال اور اسی جیسی دیگر چیزیں شامل نہیں ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مردار زندہ کا متضاد ہوتا ہے، اور زندگی دو طرح کی ہوتی ہے: جاندار کی زندگی اور نباتات کی زندگی، تو جانداروں کی زندگی کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں قوت احساس ہوتی ہے، اور وہ اپنے ارادے سے حرکت بھی کرتا ہے، جبکہ نباتات کی زندگی میں نشو و نما اور غذا حاصل کرنا شامل ہوتا ہے۔۔۔ جبکہ حرام مردار وہ ہے جس میں قوت احساس اور اپنے ارادے کی بنا پر حرکت موجود ہو، تو بالوں میں نشو و نما ہوتی ہے اور نباتات کی طرح غذا بھی پاتے ہیں، کھیتی کی طرح لمبی بھی ہو جاتی ہیں، کھیتی میں نہ تو قوت احساس ہوتی ہے اور نہ ہی یہ اپنے ارادے سے حرکت کر سکتے ہیں، بلکہ ان بالوں میں جانداروں جیسی زندگی تو پائی ہی نہیں جاتی کہ وہ اس زندگی کے بغیر مردہ ہو جائیں، اس لیے بالوں کو نجس قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
جبکہ ہڈیوں وغیرہ کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ: یہ مردار میں شامل ہیں؛ کیونکہ یہ بھی نجس ہوتی ہیں۔
تو ایسا موقف رکھنے والے کے لیے کہا جائے گا کہ: تم نے لفظوں کے عموم کو نہیں لیا؛ کیونکہ ایسے جاندار جن میں بہنے والا خون نہ ہو تو مکھی ،بچھو اور بھونرا وغیرہ آپ کے ہاں نجس نہیں ہیں اور نہ ہی جمہور علمائے کرام کے ہاں نجس ہیں؛ حالانکہ وہ جانور بھی حیوانی موت کی وجہ سے مردار ہوتے ہیں۔۔۔
اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر یہ معلوم ہوا کہ مردار کے نجس ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس میں خون رک جاتا ہے، چنانچہ جس جاندار میں بہنے والا خون نہ ہو تو تو جب وہ مر جائے گا تو اس میں خون نہیں رکے گا لہذا نجس بھی نہیں ہوگا۔
اس لیے ہڈی وغیرہ تو بالاولی نجس نہیں ہوں گے؛ کیونکہ ہڈی میں تو بہنے والا خون بالکل نہیں ہوتا، نہ ہی ہڈی اپنے ارادے سے حرکت کر سکتی ہے، اگر ہڈی میں حرکت آتی بھی ہے تو وہ جلد یا گوشت کی حرکت کی وجہ سے آتی ہے۔
چنانچہ اگر کوئی ایسا جاندار جس میں مکمل قوت احساس اور اپنے ارادے سے حرکت کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ نجس نہیں ہوتا؛ کیونکہ اس میں بہنے والا خون نہیں ہے، تو ایسی ہڈی نجس کیونکر ہو سکتی ہے جس میں بہنے والا خون بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔
اگر بات ایسے ہی ہے تو: ہڈی، کُھر، سینگ اور سم وغیرہ جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتاان کے نجس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اور یہی جمہور سلف کا موقف ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اس امت کے بہترین افراد ہاتھی کی ہڈی سے بنے ہوئے کنگھوں سے بال کنگھی کیا کرتے تھے۔
بلکہ ہاتھی کے دانتوں کے بارے میں ایک مشہور حدیث بھی ہے؛ تاہم اس میں کمزوری ہے اور یہاں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ ہمیں اس سے دلیل پکڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر مزید یہ بھی کہ جلد بھی مردار کا ایک حصہ ہوتی ہے، اس میں بھی دیگر اجزا کی طرح خون ہوتا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پاکیزگی کا طریقہ یہ بتلایا کہ اس کو رنگ دیا جائے؛ اور رنگنے سے کھال کی رطوبتیں خشک ہو جاتی ہیں۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ کھال کے نجس ہونے کا سبب رطوبتیں تھیں، جبکہ ہڈی میں نہ تو بہنے والا خون ہوتا ہے، اور اگر کوئی ہو تو وہ خشک ہو جاتا ہے، اسی طرح ہڈی کھال سے زیادہ لمبے عرصے کے لیے محفوظ کی جا سکتی ہے، اس لیے جلد کی بجائے ہڈی کے پاک ہو جانے کا حق زیادہ بنتا ہے۔” ختم شد
“الفتاوى الكبرى” (1/266-271)
خلاصہ:
اگر یہ برتن ماکول اللحم جانور کی ہڈی سے بنے ہوئے ہیں اور انہیں کسی مسلمان یا اہل کتاب نے ذبح کیا ہے تو یہ طاہر ہیں، انہیں استعمال کرنا حلال ہے۔
اور اگر ایسا نہیں ہے –اور عام طور پر چین میں ایسا ہی ہوتا ہے- تو پھر ان ہڈیوں کا تعلق مردار سے ہے، اور مردار کی ہڈی کے متعلق اختلاف بہت قوی ہے، تو مسلمان کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ ان سے بچے اور اپنی دینداری کو محتاط عمل کے ذریعے محفوظ بنائے، پھر ان ہڈیوں سے بنے ہوئے برتنوں کے علاوہ اور بہت سے برتن دنیا میں دستیاب ہیں انہیں استعمال میں لے آئے۔
ہاں اگر یہ برتن مردار کی ہڈی کی راکھ سے بنے ہوئے ہوں تو پھر مردار کی ہڈیوں کی راکھ نجس نہیں ہوتی؛ کیونکہ ہڈی کی اپنی حالت تبدیل ہو چکی ہے۔
واللہ اعلم