الحمد للہ.
اگر تو آپ كا دوست صحيح اور سليم العقل ہے تو پھر اس كے متعلق آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ سب عبث اور غلط ہے، اور وہ نماز كو پسند نہيں كرتا اور اسے حقير سمجھتا ہے، كيونكہ اگر وہ اپنے دعوى ميں سچا ہوتا اور اسے نماز سے محبت ہوتى تو وہ نماز ضرور ادا كرتا.
اور اس كا نماز سے محبت كا دعوى بھى جھوٹا اور غير صحيح ہے، كيونكہ اگر اس كا دعوى صحيح ہوتا تو وہ نماز كے ليے جاتا، نماز ميں سستى اور كوتاہى كرنے والے اس شخص كو يہ وعيد سنانى چاہيے جو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں بيان ہوئى ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور پھر ان كے بعد ايسے ناخلف پيدا ہوئے جنہوں نے نماز ضائع كردى اور نفسانى خواہشات كے پيچھے پڑ گئے، چنانچہ وہ عنقريب جہنم ميں ڈاليں جائينگے مريم ( 59 ).
اور وہ بالكل نماز ترك كرنے كى بنا پر كافر ہو گا.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) يہ حديث صحيح ہے.
اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور شرك و كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).
اس شخص كا نہ تو ذبح كيا ہوا گوشت كھايا جائيگا، اور نہ وہ كسى مسلمان لڑكى سے شادى كر سكتا ہے، اور نہ ہى وہ اپنے كسى قريبى مسلمان رشتہ دار كا وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى وہ مكہ ميں داخل ہو سكتا ہے، اور جب وہ مر جائے تو اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى كفن، اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اس كا كوئى وارث ہو گا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے ليے مال فئي ہے.
اور آپ كو اسے نصيحت كرنے كى كوشش كرتے رہنا چاہيے، اور اسے اس عظيم جرم كى سزا اور اللہ تعالى كے عذاب كى ياد دہانى كراتے رہيں.
اور اگر وہ حجت اور دليل قائم ہو جانے كے بعد بھى اعراض كرتا ہے تو پھر آپ كے ليے اس سے بائيكاٹ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ آپ كسى ايسے شخص كو تلاش كريں جو آپ كى بات قبول كرے تا كہ آپ اس كے ساتھ اللہ تعالى كے دين كى دعوت ميں وقت صرف كر سكيں.
واللہ اعلم .