الحمد للہ.
اول:
اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا حرام ہے، یا اس کے قیمت لگانے پر قیمت لگانا بھی حرام ہے، کیونکہ صحیحین کی روایت کے مطابق سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے) اس حدیث کو امام بخاری: (2139) اور مسلم : (1412)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم: (141) میں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن ، مومن کا بھائی ہے۔ چنانچہ کسی مومن کے لیے اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا حلال نہیں ہے، نہ ہی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کرنا جائز ہے حتی کہ وہ چھوڑ دے۔)
ایسے ہی صحیح مسلم: (1408) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کا پیغام نہ بھیجے، نہ ہی اپنے بھائی کے قیمت لگانے پر قیمت لگائے)
علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"بیع پر بیع کی مثال یہ ہے کہ: مدت خیار میں کوئی کسی خریدار سے کہے: یہ خریدی ہوئی چیز تم واپس کر دو، میں تمہیں یہی چیز اس سے بھی سستے داموں میں دیتا ہوں، یا اس سے اچھی چیز اسی قیمت میں دیتا ہوں۔ یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہے۔ تو یہ حرام ہے۔ اسی طرح کوئی دکاندار کو مدت خیار میں کہے: یہ سودا کینسل کر دو، میں تمہیں اس سے زیادہ دام دیتا ہوں، یا ایسی ہی کوئی بات کہے۔
قیمت پر قیمت لگانے کا مطلب یہ ہے کہ: دکاندار اور خریدار دونوں لین دین پر راضی ہو گئے ہیں، لیکن ابھی انہوں نے لین دین نہیں کیا، تو ایسی صورت میں دکاندار سے کوئی کہے: میں تم سے خریدتا ہوں، تو یہ بھی اس وقت حرام ہے جب قیمت طے ہو چکی ہو۔" ختم شد
شرح مسلم: (10/ 158)
مدت خیار کی شرط لگانا علمائے کرام کے دو موقفوں میں سے ایک موقف ہے۔
جبکہ راجح یہ ہے کہ مدت خیار ہو یا نہ ہو بیع پر بیع کرنا منع ہے، اس لیے اپنے دینی بھائی کی بیع پر بیع کرنا جائز نہیں ہے، یا پھر عقد پورا ہونے کے بعد یا اجرت طے ہونے کے بعد کوئی اور اجرت لگائے؛ کیونکہ اس سے دل میں پشیمانی پیدا ہو گی اور دل میں منفی خیالات آئیں گے، اور عین ممکن ہے کہ انسان عقد فسخ کرنے کے لیے حیلے بازی کرنے لگے۔
مزید کے لیے آپ دیکھیں الشرح الممتع از شیخ ابن عثیمین: (8/204)
دوم:
آپ کی ذکر کردہ صورت میں بیع پر بیع نہیں ہے؛ کیونکہ سوال میں مذکور کرایہ دار کے ساتھ معاملہ طے ہی نہیں ہوا تھا۔
نہ ہی قیمت پر قیمت لگانا لازم آتا ہے؛ کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ بائع اور مشتری کا کسی قیمت پر متفق ہو جانا ہوتا ہے، یعنی فریقین کسی قیمت پر متفق ہو جائیں اور کوئی آ کر کہے کہ میں اس سے زیادہ قیمت دے کر لینا چاہتا ہوں۔ اور صورت مسئولہ میں ایسا نہیں ہوا۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی اتنی دیر تک خریداری کو حتمی شکل نہ دے تو اسے یہی سمجھا جاتا ہے وہ خریدنا ہی نہیں چاہتا، تو ایسی صورت میں بائع کو انتظار کرنے کا مکلف نہیں بنانا چاہیے، نہ ہی اس کچے خریدار کی وجہ سے کسی دوسرے کو خریداری سے روکا جائے گا ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ:
دکان کی خریداری کی وجہ سے آپ پر کچھ نہیں ہے، نہ ہی آپ کو لوگوں کی باتوں میں آ کر مہینہ بھر انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ: اگر بائع کرایہ دار کو دکان فروخت کرنے سے انکار کر دیتا ہے، یا کرایہ دار کی لگائی ہوئی قیمت کو مسترد کر دیتا ہے تو اب کسی پر بھی حرج نہیں ہے کہ وہ خریداری کے لیے آ گے آئے یا قیمت لگائے، اس صورت میں بائع پر کرایہ دار کے حق میں کچھ بھی نہیں ہو گا۔
بیع پر بیع اور قیمت پر قیمت اس وقت ہوتی ہے جب فریقین خریداری کو حتمی شکل دینے کی طرف جا رہے ہوں، دونوں راضی ہوں، اور وہ اسے جلد ہی کنفرم کرنے والے ہوں، جیسے کہ پہلے اس کی تفصیلات گزر چکی ہیں۔
اب یہاں دکان آپ نے خرید لی ہے، اب اگر یہ کرایہ دار اس دکان کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حرام عمل ہے، اور اس پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی بیع پر بیع کر رہا ہے۔
واللہ اعلم