الحمد للہ.
جس نے كسى عورت كا پانچ رضاعت دو برس كى عمر ميں دودھ پيا تو وہ اس كا رضاعى بيٹا بن جاتا ہے، اور وہ عورت اس كى رضاعى ماں بن جائيگى، اسى طرح اس كا خاوند ( دودھ والا ) اس بچے كا رضاعى باپ بن جائيگا، اور جس نے بھى اس عورت كا دودھ پيا وہ اس بچے كا رضاعى بھائى يا بہن شمار ہو گا.
اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
" قرآن مجيد ميں دس معلوم رضعات نازل ہوئى تھيں، پھر انہيں پانچ معلوم رضاعت كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا ... "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1452 ).
اور اس كى دليل ترمذى شريف كى درج ذيل حديث بھى ہے:
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہى رضاعت حرمت پيدا كرتى ہے جس سے انتڑياں بھريں اور دودھ چھڑانے كى عمر ميں سے قبل ہو"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1152 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل حديث نمبر ( 2150 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان: " في الثدى " كا معنى رضاعت كى مدت ہے، عرب كا قول ہے: مات فلان في الثدى يعنى وہ رضاعت كى عمر ميں دودھ چھڑانے سے قبل ہى فوت ہو گيا. يہ امام شوكانى كا قول ہے.
امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث حسن صحيح ہے، اور اكثر اہل علم اور صحابہ كرام رضى اللہ عنہم وغيرہ كا اسى پر عمل ہے، كہ رضاعت وہى حرمت ثابت كرتى ہے جو دودھ چھڑانے كى عمر دو برس سے قبل ہو، اور مكمل دو برس كے بعد رضاعت كچھ حرام نہيں كرتى " اھـ
امام بخارى رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حمزہ رضى اللہ تعالى عنہا كى بيٹى كے متعلق فرمايا تھا:
" وہ ميرے ليے حلال نہيں، رضاعت سے بھى وہى حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے، يہ ميرے رضاعى بھائى كى بيٹى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2645 ).
اور رضاعت كى تعريف يہ ہے كہ:
ابن قيم رحمہ اللہ زاد المعاد ميں اس كى تعريف كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
بلاشك و شبہ رضعۃ رضاع كا اسم مرۃ ہے يعنى ايك بار دودھ پينے كو رضعہ كہتے ہيں: جس طرح ضربۃ و جلسۃ و اكلۃ ہے لہذا جب بھى بچہ پستان منہ ميں ڈال كر چوسے اور پھر بغير كسى سبب كے خود ہى چھوڑ دے تو يہ ايك رضاعت كہلاتى ہے.
كيونكہ شريعت ميں يہ مطلقا وارد ہے، اس ليے اسے عرف پر محمول كيا جائيگا، اور عرف يہى ہے، سانس لينے يا تھوڑى سى راحت كے ليے يا پھر كسى اور چيز كى وجہ سے رك جانا اور پھر جلد ہى دودھ دوبارہ پينا شروع كر دينا اسے ايك رضاعت سے خارج نہيں كرتا.
جس طرح كھانے والا شخص جب اس سے كھانا چھوڑ كر پھر جلد ہى دوبارہ شروع كر ديتا ہے تو دو بار كھانا نہيں كہتے بلكہ يہ ايك ہى ہے، امام شافعى كا مسلك يہى ہے...
اگرچہ وہ ايك پستان سے دوسرے پستان ميں منتقل ہو جائے تو بھى ايك ہى رضاعت ہو گى " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 575 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 2864 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب عورت كسى بچے كو پانچ معلوم رضاعت يا اس سے زيادہ دو برس كى عمر ميں دودھ پلائے تو دودھ پينے والا بچہ اس كا اور اس كے خاوند كا رضاعى بيٹا بن جائيگا، اور اس عورت اور اس كے خاوند دودھ والے كى سارى اولاد اس دودھ پينے والے بچے كے رضاعى بہن بھائى ہونگے، چاہے وہ دودھ پلانے والى عورت سے ہوں يا دوسرى بيوى سے، اور اس عورت كے بھائى بچے كے رضاعى ماموں ہوئے، اور دودھ والے خاوند كے بھائى بچے كے رضاعى چچا ہوئے، اور عورت كا باپ بچے كا رضاعى نانا، اور خاوند كا باپ بچے كا رضاعى دادا بن گيا، اور اس كى ماں بچے كى رضاعى دادى بن جائيگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا سورۃ النساء ميں محرم عورتوں كے متعلق فرمان ہے:
اور تمہارى مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہے اور تمہارى رضاعى بہنيں النساء ( 23 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت سے وہى كچھ حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے "
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت صرف دو برس كى عمر ميں ہے "
اور اس ليے بھى كہ صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سےمروى ہے وہ بيان كرتى ہيں:
" قرآن مجيد ميں دس معلوم رضاعت نازل ہوئيں جن سے حرمت ثابت ہوتى تھى، پھر انہيں پانچ معلوم رضاعت كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب فوت ہوئے تو امر يہى تھا "
اسے ان الفاظ ميں ترمذى نےروايت كيا ہے، اور اس كى اصل صحيح مسلم ميں ہے. انتہى
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 333 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
اگر تو آپ كے اس بيٹے نے دو برس كى عمر ميں آپ كے خاوند كے بھائى كى بيوى كا پانچ رضاعت دودھ پيا ہے تو وہ اس عورت كى سارى اولاد بيٹے اور بيٹيوں كا رضاعى بھائى ہوا.
اور اسى طرح اس عورت كے جس بيٹے نے آپ كا دودھ پيا ہے وہ آپ كا رضاعى بيٹا اور آپ كى سارى اولاد بيٹے اور بيٹيوں كا رضاعى بھائى ہوا، چاہے وہ اس سے بڑے ہوں يا اس سے چھوٹے اور چاہے وہ اس وقت موجود ہيں يا بعد ميں پيدا ہوں.
اور آپ كى اولاد كے ليے ـ اس بيٹے كے علاوہ جس نے اپنى چچى كا دودھ پيا ہے ـ اپنے چچا كى بيٹيوں سے شادى كرنى جائز ہے، كيونكہ ان كے درميان كوئى حرمت نہيں، اور آپ كى بيٹياں اپنے چچا كے بيٹوں سے شادى كرنى جائز ہے، ليكن وہ جس نے آپ كا دودھ پيا ہے وہ آپ كى بيٹيوں كا رضاعى بھائى ہے وہ ان سے شادى نہيں كر سكتا جيسا كہ اوپر بيان كيا جا چكا ہے.
واللہ اعلم .