الحمد للہ.
خاوند کی وفات پر یا طلاق بائن کی عدت گزارنے والی عورت کے لیے جائز ہے کہ دن میں اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے جا سکتی ہے بشرطیکہ رات واپس آ جائے اور اپنے گھر میں رات گزارے۔
اس حوالے سے قاعدہ یہ ہے کہ: "عدت گزارنے والی عورت کے لیے ضرورت پڑنے پر دن میں گھر سے نکلنا جائز ہے"۔
یہاں بیمار والدہ کی عیادت شرعی طور پر معتبر ضرورت ہے؛ کیونکہ اس سے باہمی مانوسیت پیدا ہو گی اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک بھی۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (152188 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"میری والدہ میرے والد مرحوم صاحب کی وفات پر عدت گزار رہی ہیں، اور وہ عدت کے دوران ہی اپنی بوڑھی والدہ سے ملنے کے لیے چانا چاہتی ہیں، ان سے ملاقات انہی کے گھر میں ہو گی؛ کیونکہ میری نانی اماں بہت زیادہ بوڑھی ہیں اور وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتیں، میری نانی اماں کا گھر ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے، جہاں ہمارا گھر ہے اسی علاقے میں میری نانی اماں کا بھی گھر ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ : کیا میری والدہ اپنے گھر سے نکل کر اپنی والدہ کے گھر ان سے ملنے کے لیے جا سکتی ہیں؟ اور واضح رہے کہ میری والدہ پہلے بھی دوران عدت کئی بار اپنی والدہ سے ملنے کے لیے جا چکی ہیں تو کیا ان پر کوئی گناہ ہو گا؟
جواب: عدت گزارنے والی عورت کے لیے دن کے وقت کسی ضرورت کی غرض سے اپنے گھر سے نکلنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، رات کے وقت نکلنا منع ہے۔ بوڑھی والدہ سے سفر کیے بغیر ملنا بہت بڑی ضرورت ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عدت گزارنے والی خواتین کو دن میں اکٹھے ہونے کی اجازت دی تھی کہ آپس میں مانوسیت بڑھے اور تنہائی محسوس نہ کریں، تاہم یہ خواتین رات کو اپنے گھروں میں چلی جاتی تھیں، جیسے کہ سیدنا مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: جنگ احد میں کئی صحابہ کرام شہید ہو گئے تو ان کی بیوائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگیں: ہمیں رات کو تنہائی اور گھٹن محسوس ہوتی ہے، تو کیا ہم مل کر کسی ایک عورت کے گھر میں رات گزار لیا کریں؟ اور صبح ہوتے ہی ہم اپنے اپنے گھروں میں چلی جایا کریں گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم دن میں ایک دوسرے کے پاس جا کر باتیں کر لیا کرو، اور جب سونے کا ارادہ ہو تو ہر ایک اپنے اپنے گھر آ جایا کرے) اس اثر کو عبد الرزاق نے مصنف میں اور بیہقی نے سنن کبری میں روایت کیا ہے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور آپ کے تمام صحابہ کرام رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز الشیخ عبد العزیز آل الشیخ الشیخ عبد اللہ غدیان الشیخ صالح الفوزان الشیخ بکر ابو زید۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (20/476)
تاہم اگر ابھی طلاق رجعی ہے تو پھر اس کے لیے اپنے خاوند سے اجازت لینا بھی شرط ہے؛ کیونکہ طلاق رجعی والی خاتون ابھی بھی خاوند کی بیوی ہی ہوتی ہے، اسے وہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں جو بیوی کو حاصل ہوتے ہیں، اور اس پر وہ تمام ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو بیوی پر ہوتی ہیں۔
جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں: (جس وقت کوئی آدمی اپنی اہلیہ کو ایک یا دو طلاقیں دے دے تو پھر بھی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۔) اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے مصنف : (4/142) میں روایت کیا ہے۔
واللہ اعلم