سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا یہ صحیح ہے کہ مالکی فقہائے کرام ابرو باریک کرنے کی ممانعت صرف ایسی خواتین کے لیے خاص کرتے ہیں جن کے لیے زینت اختیار کرنا منع ہے؟

290806

تاریخ اشاعت : 28-01-2022

مشاہدات : 1772

سوال

میں نے مالکی فقہائے کرام کا موقف پڑھا ہے کہ ان کے ہاں ابرو باریک کرنا جائز ہے؟ اور جن روایات میں ممانعت کا ذکر ہے وہ ایسی خواتین کے ساتھ خاص ہے جنہیں زینت اختیار کرنے کی ممانعت ہے، جیسے کہ بیوہ عورت اور جس کا خاوند گم ہو گیا ہو، تو کیا مالکی فقہائے کرام کا یہ موقف صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی ہاں، جو موقف آپ نے مالکی فقہائے کرام کا سنا ہے وہ ان کے ہاں معتبر موقف ہے، جیسے کہ فقہ مالکی کی کتاب: "الفواكه الدواني" (2 / 509) میں ہے کہ:
"عربی زبان میں "نمص" ابرو کے بالوں کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے اکھاڑ کر باریک کرنے پر بولا جاتا ہے۔

لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابرو اور چہرے کے بال زائل کرنا بھی مروی ہے، جو سابقہ موقف کے موافق ہے کہ فقہ مالکی میں معتمد موقف یہ ہے کہ عورت کے سر کے علاوہ جسم کے سارے بال مونڈے جا سکتے ہیں ۔

اس بنا پر حدیث میں جو ممانعت ہے وہ ایسی عورت کے لیے خاص ہے جس کے لیے زینت اختیار کرنے کی ممانعت ہے جیسے کہ بیوہ عورت ہے یا جس کا خاوند فوت ہو چکا ہے۔" ختم شد

فقہائے مالکیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے جس اثر کو دلیل بنایا ہے اس کا تذکرہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں کیا ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں:
"اس اثر کو امام طبری نے ابو اسحاق کی سند سے بیان کیا ہے وہ اپنی اہلیہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کی نوجوان اہلیہ سیدہ عائشہ کے پاس گئیں - میری اہلیہ کو بناؤ سنگھار بہت پسند تھا- تو وہ کہنے لگی: کیا عورت اپنی پیشانی کے بال اکھاڑ سکتی ہے؟ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جس قدر ممکن ہو سکے اپنے آپ سے ناگوار چیزیں دور کر لو" ختم شد
"فتح الباري" (10 / 378)

اس اثر کو ابن الجعد رحمہ اللہ نے "المسند" (451) میں اسی سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب: "غاية المرام" (96) میں ضعیف قرار دیا ہے؛ کیونکہ یہاں ابو اسحاق کی اہلیہ جو کہ سیدہ عائشہ سے بیان کر رہی ہیں وہ مجہول الحال ہیں، ویسے ان کا نام عالیہ تھا۔

ابو اسحاق کی اہلیہ کے بارے میں جہالت کا حکم اور ان کی روایات کو دلیل نہ بنانے کا حکم امام دارقطنی نے بھی "السنن الکبری" (3 / 477) میں بھی لگایا ہے اور اسی کی طرف امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "الأم" (4 / 74) میں اشارہ بھی کیا ہے۔

لہذا جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول اس اثر کا کمزور ہونا ثابت ہو گیا تو یہ دلیل نہیں بن سکتا۔

اور اگر اس کو صحیح فرض کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سیدہ عائشہ کو ممانعت کا حکم نہیں پہنچا اور انہوں نے جو بھی فتوی دیا وہ اپنے اجتہاد سے دیا۔

ممانعت کی دلیل سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ( اللہ تعالی نے جسم گودنے اور گدوانے والی عورت پر، ابرو کے بال باریک کرنے کے لیے انہیں اکھاڑنے والی عورت پر، دانتوں کے درمیان خلا پیدا کروانے والے عورت پر، اور اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی رونما کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ پھر فرمایا : میں کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اس پر لعنت بھیجوں جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت بھیجی ہے؛ اور یہ بات اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:  وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا  ترجمہ: رسول تمہیں جو دے دے اسے لے لو، اور جس چیز سے وہ روک دے اس سے رک جاؤ۔ [الحشر: 7] ) اس حدیث کو امام بخاری: (5931) اور مسلم : (2125)نے روایت کیا ہے۔

تو اس حدیث میں ابرو کے بال اکھاڑنے والے عورت کے تذکرے میں عموم ہے، اور اصولی موقف یہ ہے کہ عام حکم کو عام ہی رکھا جاتا ہے، اسے خاص کرنے کے لیے الگ سے دلیل چاہیے۔

چنانچہ الشیخ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تحقیقی اور جمہور اہل علم کی بات یہ ہے کہ عام کو عام رکھتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے اور کسی مخصص کے ملنے تک اس پر عمل موقوف نہ کیا جائے؛ کیونکہ لفظ عموم کے لیے وضع کیے جاتے ہیں، اس لیے لفظ کے عموم کے مطابق عمل کیا جائے، اور اگر کوئی مخصص مل جائے تو اس پر عمل کریں۔۔۔
ہم نے پہلے یہ بات بیان کی ہے کہ ظاہر پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے، تا آنکہ کوئی دلیل ظاہر سے پھیرنے کی مل جائے۔
اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ عموم اپنے تحت آنے والے تمام مدلولات کو شامل ہوتا ہے، یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے۔" ختم شد
"مذكرة أصول الفقہ" (ص 261)

علامہ شنقیطی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"اصول فقہ میں یہ بات مسلمہ ہے کہ کسی بھی عام کی تخصیص بغیر دلیل کے کرنا جائز نہیں ہے، چاہے مخصص متصل ہو یا منفصل۔" ختم شد
"أضواء البيان" (5 / 83)

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو اگر صحیح ثابت مان بھی لیا جائے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف اس کے خلاف ہے، اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ جب صحابہ کرام کے اقوال آپس میں مختلف ہوں تو کسی ایک صحابی کا موقف دوسرے کے خلاف حجت نہیں بن سکتا، بلکہ ایسی صورت میں نصوص شریعت کی طرف رجوع کرنا لازم ہو گا۔

جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اقوال صحابہ کے بارے میں یہ ہے کہ جب ان کے اقوال ان کے زمانے میں مشہور ہو جائیں اور ان کے خلاف کوئی قول نہ آئے تو جمہور اہل علم کے ہاں ایسے اقوال حجت ہیں، اور اگر صحابہ کرام کا کسی مسئلے میں اختلاف ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول کی جانب رجوع کیا جائے گا۔
اور کسی بھی صحابی کا قول دیگر صحابہ کے اقوال کے خلاف حجت نہیں بن سکتا، اس پر تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (20 / 14)

علقمہ رحمہ اللہ ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: "اللہ تعالی نے جسم گودنے اور گدوانے والی عورت پر، ابرو کے بال باریک کرنے کے لیے انہیں اکھاڑنے والی عورت پر، دانتوں کے درمیان خلا پیدا کروانے والے عورت پر، اور اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی رونما کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔
علقمہ کہتے ہیں: جس وقت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی تو بنو اسد کی ام یعقوب نامی ایک خاتون نے کہا: میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہے! اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ابھی میرے گھر جاؤ اور دیکھو۔ تو وہ خاتون گئی اور دیکھا، لیکن اسے اپنی مطلوبہ چیز نظر نہ آئی۔ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اگر وہ ایسی ہوتی تو میں اسے اپنے عقد میں نہ رکھتا۔" یعنی میں اسے طلاق دے دیتا، اور اپنے گھر میں رہنے کی قطعاً اجازت نہ دیتا۔

اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ: آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی آپ کے لیے بناؤ سنگھار کرتے ہوئے وہ کام نہیں کرتی تھیں جن سے آپ نے منع فرمایا تھا۔

بعض جگہوں پر اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ اس خاتون اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان گفتگو خاص ابرو کے بال باریک کرنے کے بارے میں ہوئی تھی ، چنانچہ علامہ شاشی رحمہ اللہ "المسند" (2 / 256) میں اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ قبیصہ بن جابر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہم قرآن کریم کی سورتیں سیکھنے کے لیے مرد و خواتین سب شریک ہوتے تھے، ایک بار میں بنو اسد کی ایک بوڑھی خاتون کے ہمراہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر گئے، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بوڑھی عورت کی چمکتی ہوئی پیشانی دیکھی تو پوچھ لیا: کیا پیشانی کے بال مونڈتی ہو؟ اس سوال پر بوڑھی عورت غضبناک ہو گئی، پھر کہنے لگی: جو اپنی پیشانی کو مونڈتی ہے نا وہ تمہاری بیوی ہو گی! اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جاؤ ابھی اس کے پاس جا کر دیکھو، اگر واقعی اس نے یہ کام کیا ہوا ہے تو پھر وہ میری طرف سے فارغ ہے۔ یہ سن کر وہ بوڑھی عورت آپ کی بیوی کے پاس گئی اور واپس آ کر کہنے لگی: اللہ کی قسم میں نے اسے یہ کام کرنے والی نہیں پایا۔ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنا ہے کہ آپ ابرو کے بال اکھاڑ کر باریک کرنے والی عورتوں پر، اپنے دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کروانے والی عورتوں پر، اور ایسے اپنے جسم پر گدوانے والی عورتوں پر جو اللہ تعالی کی تخلیق بدل دیں، ان پر لعنت فرما رہے تھے۔" اس حدیث کو علامہ البانی ؒ نے "آداب الزفاف" (ص 203 - 204) میں حسن قرار دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ:
مالکی فقہائے کرام کا اس بارے میں جو موقف ہے وہ مرجوح موقف ہے، اور دلائل کے اعتبار سے مضبوط بھی نہیں ہے، بلکہ یہ مذکورہ حدیث کے عموم کو بلا دلیل خاص کرنا ہے جو کہ صحیح نہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب