الحمد للہ.
اول:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کسی بھی وقت درود و سلام پڑھنا شرعی عمل ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی اور اللہ کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درو د و سلام پڑھا کرو۔[الأحزاب:56]
اسی طرح سنن ابو داود: (2041) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی مسلمان مجھ پر سلام پڑھے تو اللہ تعالی مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام جواب دیتا ہوں۔) اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر بہت سے دلائل ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنے کی ترغیب ہے، خصوصاً ایسے مقام پر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام لیا جائے۔
چنانچہ اگر کوئی شخص مسجد نبوی کی تصویر دیکھے یا آپ کی قبر کی تصویر دیکھے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یاد آ جائیں تو وہ درود و سلام پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ان شاء اللہ یہ قرب الہی کا ذریعہ اور اطاعت گزاری ہو گی جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
تاہم یہ واضح رہے کہ یہ وہ سلام نہیں ہو گا جو قبرِ نبوی کی زیارت کے وقت پڑھا جاتا ہے، یہ محض دعا اور ثنا ہو گی۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ: "السلام عليك أيها النبي" تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس میں خبر دی جا رہی ہے یا یہ دعا ہے؟ یعنی مطلب یہ ے کہ یہ الفاظ بول کر آپ یہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلامتی نازل ہو چکی ہے، یا پھر آپ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان پر سلامتی نازل فرمائے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ: یہ دعا ہے، یعنی آپ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلامتی نازل فرمائے، اس طرح یہ خبر بمعنی دعا ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (3 / 150)
دوم:
جبکہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ ہے کہ کسی بھی وقت ان کے بارے میں رضی اللہ عنہ کہا جا سکتا ہے اور رحمت الہی کی دعا کی جا سکتی ہے، البتہ سلام صرف اسی وقت ہو گا جب آپ ان کی قبروں کی زیارت کریں، نہ کہ ان کی قبروں کی تصویر ٹی وی وغیرہ کے ذریعے دیکھنے پر انہیں سلام بھیجیں، یہ شرعی عمل نہیں ہو گا، نیز یہاں کسی کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ تصویر دیکھنے پر سلام پڑھنے کو قبر پر سلام کرنے پر قیاس کرتے ہوئے اس کے مستحب ہونے کی دلیل بنائے؛ کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہو گا، اور ویسے بھی عبادات تو صرف شرعی دلیل سے ہی ثابت ہوتی ہیں۔
جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی چیز کو مستحب قرار دینا اس چیز کے بارے میں شرعی حکم بیان کرنا ہے۔ اس لیے استحباب دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہوگا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی طرف سے بغیر کسی کے دلیل کے کہتا ہے کہ فلاں عمل اللہ تعالی کے ہاں محبوب ہے تو وہ اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر دین میں غیر شرعی کام کو شرعی بنا رہا ہے۔ یہی ضابطہ کسی بھی کام یا عمل کو واجب یا حرام قرار دینے کے متعلق بھی ہے، اسی لیے اہل علم کا کسی کام کے مستحب ہونے کے متعلق بھی اسی طرح اختلاف ہے جیسے دیگر کاموں میں ہوتا ہے، بلکہ کسی عمل کو حرام، واجب قرار دینا دین کی بنیادی اکائی ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (18 / 65)
خلاصہ کلام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کی تصویر دیکھ کر اسے یاد آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام پڑھا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم یہ وہ سلام نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کے پاس زیارت کے دوران ہوتا ہے۔
جبکہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا جب بھی ذکر آئے تو ان کے لیے رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے اور رحمت کی دعا کی جاتی ہے، سلام نہیں پڑھا جاتا۔
واللہ اعلم