جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

نماز وتر كا وقت كب ختم ہوتا ہے ؟

32577

تاریخ اشاعت : 09-03-2010

مشاہدات : 8690

سوال

وتر اور دو دو ركعت كا وقت كب ختم ہوتا ہے، ميں جان بوجھ كر اسے فجر كى تكبير تك مؤخر كرتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز وتر كا وقت نماز عشاء كے بعد سے ليكر طلوع فجر تك رہتا ہے.

اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 46544 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور جب طلوع فجر ہو جائے تو وتر كا وقت نكل جاتا ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم صبح ہونے سے قبل وتر ادا كر ليا كرو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 754 ).

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" صبح ہونے سے پہلے جلد وتر ادا كر ليا كرو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 750 ).

اور ايك روايت ميں ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وتر رات كى آخرى ركعت ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 752 ).

اور ترمذى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب فجر طلوع ہو جائے تو رات كى سارى نماز اور وتر جاتا رہتا ہے لہذا طلوع فجر سے قبل وتر ادا كر ليا كرو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 469 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور بخارى و مسلم نے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" رات كى نماز دو دو ركعت ہے، جب صبح ہونے كا خدشہ ہو تو ايك ركعت ادا كر لے تو اس كى ادا كردہ نماز كو وتر بنا دے گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 472 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 749 )

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس پر دلالت ہے كہ طلوع فجر سے وتر كا وقت ختم ہو جاتا ہے، اور اس ليے بھى كہ اس كے ساتھ رات كى نماز كا اختتام كيا جاتا ہے، تو رات ختم ہو جانے كے بعد وتر نہيں ہو گا" اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 14 / 115 ).

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ:

اس كا وقت طلوع فجر كے بعد نماز فجر كى ادائيگى تك رہتا ہے، اور انہوں نے استدلال كيا ہے كہ بعض صحابہ كرام طلوع فجر كے بعد اور نماز كى اقامت ہونے سے قبل وتر ادا كيا ہے.

ابن رشد قرطبى كہتے ہيں:

اور اس ـ يعنى وتر ـ كا وقت: علماء كرام كا اتفاق ہے كہ وتر كا وقت نماز عشاء كے بعد سے ليكر طلوع فجر تك رہتا ہے، كيونكہ يہ كئى ايك طرق سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور اس سلسلے ميں سب سے زيادہ صحيح روايت امام مسلم كى ابو نضرہ عوفى سے بيان كردہ روايت ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ انہيں ابوسعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بتايا كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وتر كے متلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:

" وتر صبح سے قبل ہے "

اور فجر كى نماز كے بعد وتر ادا كرنے ميں اختلاف كيا ہے، كچھ علماء نے تو ايسا كرنے سے منع كيا ہے، اور كچھ نے اجازت دى ہے كہ جب تك وہ صبح كى نماز نہيں ادا كرتا وتر پڑھ سكتا ہے.

پہلا قول امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كے صاحبين ابو يوسف اور محمد بن حسن اور سفيان ثورى كا ہے.

اور دوسرا قول امام شافعى، امام مالك، اور امام احمد رحمہم اللہ كا ہے اور اختلاف كا سبب صحابہ كرام كا عمل آثار كے معارض ہے...

اور ميرے نزديك اس ميں يہ ہے كہ: يہ ان كا فعل اس سلسلے ميں وارد شدہ آثار كے مخالف نہيں ـ ميرى مراد يہ ہے كہ فجر كے بعد وتر كى ادائيگى كى اجازت دينا ـ بلكہ ان كى يہ اجازت بطور قضاء ہے نہ كہ بطور ادا، بلكہ جب فجر كے بعد اگر وہ اسے بطور ادا بناتے ہيں تو پھر آثار كے مخالف ہو گا، ذرا اس پر غور كرو...

ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 1 / 147 - 148 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس موضوع ميں احاديث بہت ہيں، جو كہ اس بات پر دلالت كرتى ہيں كہ طلوع فجر سے وتر كا وقت ختم ہو جاتا ہے.

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 306 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب