سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نماز وتر كى وارد شدہ كيفيات

سوال

نماز وتر كى ادائيگى ميں افضل كيفيت كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز وتر اللہ تعالى كے قرب كے ليے سب سے افضل اور عظيم عبادات ميں شامل ہوتى ہے، حتى كہ بعض علماء كرام ـ يعنى احناف ـ تو اسے واجبات ميں شمار كرتے ہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ يہ سنت مؤكدہ ميں شامل ہوتى ہے جس كى مسلمان شخص كو ضرور محافظت كرنى چاہيے، اور اسے ترك نہيں كرنا چاہيے.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نماز وتر چھوڑنے والا شخص برا آدمى ہے، اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے"

جو كہ نماز وتر كى ادائيگى كى تاكيد پر دلالت كرتى ہے.

نماز وتر كى ادائيگى كى كيفيات كا خلاصہ ہم مندرجہ ذيل نقاط ميں بيان كر سكتے ہيں:

نماز وتر كى ادائيگى كا وقت:

اس كا وقت نماز عشاء كى ادائيگى سے شروع ہوتا، يعنى جب انسان نماز عشاء ادا كر لے چاہے وہ مغرب اور عشاء كو جمع تقديم كى شكل ميں ادا كرے تو عشاء كى نماز ادا كرنے سے ليكر طلوع فجر تك نماز وتر كا وقت رہے گا.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى نے تمہيں ايك نماز زيادہ دى ہے اور وہ نماز وتر ہے جو اللہ تعالى نے تمہارے ليے عشاء اور طلوع فجر كے درميان بنائى ہے"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 425 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح كہا ہے.

اور كيا نماز وتر كو اول وقت ميں ادا كرنا افضل ہے يا كہ تاخير كے ساتھ ادا كرنا افضل ہے ؟

سنت نبويہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ جو شخص رات كے آخر ميں بيدار ہونے كا طمع ركھتا ہو اس كے ليے نماز وتر ميں تاخير كرنا افضل ہے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں نماز پڑھنى افضل ہے، اور اس ميں فرشتے حاضر ہو تے ہيں، اور جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكتا تو اس كے ليے سونے سے قبل نماز وتر ادا كرنا افضل ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكے گا تو وہ رات كے اول حصہ ميں وتر ادا كر لے، اور جسے يہ طمع ہو كہ وہ رات كے آخرى حصہ ميں بيدار ہو گا تو وہ وتر رات كےآخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كردہ نماز مشھودۃ اور يہ افضل ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 755 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور يہى صحيح ہے، اور باقى مطلق احاديث كو اس صحيح اورصريح افضليت پر محمول كيا جائے گا، ان ميں يہ حديث بھى ہے:

" ميرى دلى دوست نے مجھے وصيت كى كہ ميں وتر ادا كر سويا كروں"

يہ اس شخص پر محمول ہو گى جو بيدار نہيں ہو سكتا. اھـ

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 277 ).

وتر ميں ركعات كى تعداد:

كم از كم وتر ايك ركعت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رات كے آخر ميں ايك ركعت وتر ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 752 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رات كى نماز دو دو ہے، لہذا جب تم ميں سے كسى ايك كو صبح ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت ادا كر لے جو اس كى پہلى ادا كردہ نماز كو وتر كر دے گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 911 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 749 )

لہذا جب انسان ايك ركعت ادا كرنے پر ہى اكتفا كرے تو اس نے سنت پر عمل كر ليا...

اور اس كے ليے تين اور پانچ اور سات اور نو ركعت وتر بھى ادا كرنے جائز ہيں.

اگر وہ تين وتر ادا كرے تو اس كے ليے دو طريقوں سے تين وتر ادا كرنے مشروع ہيں:

پہلا طريقہ:

وہ تين ركعت ايك ہى تشھد كے ساتھ ادا كرے. اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر كى دو ركعتوں ميں سلام نہيں پھيرتے تھے"

اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تين وتر ادا كرتے تو اس كى آخر كے علاوہ نہيں بيٹھتے تھے"

سنن نسائى ( 3 / 234 ) سنن بيھقى ( 3 / 31 ) امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں لكھتےہيں: امام نسائى نے حسن سند كے ساتھ اور بيھقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے. اھـ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 7 ).

دوسرا طريقہ:

وہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھير دے اور پھر ايك ركعت واتر ادا كرے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما دو ركعت اور اپنے وتر كے درميان سلام پھيرتے تھے، اور انہوں نے بتايا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ہى كيا كرتے تھے"

رواہ ابن حبان حديث نمبر ( 2435 ) ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ( 2 / 482 ) ميں كہتے ہيں اس كى سند قوى ہے. اھـ

ليكن اگر وہ پانچ يا سات وتر اكٹھے ادا كرے تو صرف اس كے آخر ميں ايك ہى تشھد بيٹھے اور سلام پھير دے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو گيارہ ركعت نماز ادا كرتے اس ميں پانچ ركعت وتر ادا كرتے اور ان ميں آخرى ركعت كے علاوہ كہيں نہ بيٹھتے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 737 ).

اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پانچ اور سات وتر ادا كرتے اور ان كے درميان سلام اور كلام كے ساتھ عليدگى نہيں كرتے تھے"

مسند احمد ( 6 / 290 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1714 ) نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں اس كى سند جيد ہے.

ديكھيں: الفتح الربانى ( 2 / 297 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور جب اكٹھى نو ركعت وتر ادا كرنى ہوں تو تو آٹھويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر پھر نويں ركعت كے ليے كھڑا ہو اور سلام نہ پھيرے اور نويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر سلام پھيرے گا، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ركعات ادا كرتے اور ان ميں آٹھويں ركعت ميں بيٹھ كر اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور دعاء كرتے اور سلام پھيرے بغير اٹھ جاتے پھر اٹھ كر نويں ركعت ادا كر كے بيٹھتے اور اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كر كے دعاء كرتے اور پھر ہميں سنا كر سلام پھيرتے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 746 ).

اور اگر وہ گيارہ ركعت ادا كرے تو پھر ہر دو ركعت ميں سلام پھيرے اور آخر ميں ايك وتر ادا كرے.

وتر ميں كم از كم اور اس ميں قرآت كيا ہو گى:

وتر ميں كم از كم كمال يہ ہے كہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھيرى جائے اور پھر ايك ركعت ادا كر كے سلام پھيرے، اور تينوں كوايك سلام اور ايك تشھد كے ساتھ ادا كرنا بھى جائز ہے، اس ميں دو تشھد نہ كرے جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.

اور پہلى ركعت ميں سبح اسم ربك الاعلى پورى سورۃ پڑھے، اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الكافرون اور تيسرى ركعت ميں سورۃ الاخلاص پڑھے.

ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر ميں سبح اسم ربك الاعلى اور قل يا ايھالكافرون اور قل ہو اللہ احد پڑھا كرتے تھے"

سنن نسائى حديث نمبر ( 1729 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

نماز وتر كى مندرجہ بالا سب صورتيں اور كيفيات سنت ميں وارد ہيں اور اكمل يہ ہے كہ مسلمان شخص ايك ہى كيفيت ميں نماز وتر ادا نہ كرتا رہے بلكہ اسے كبھى ايك اور كبھى دوسرى كيفيت ميں نماز وتر ادا كرنى چاہيے تا كہ وہ سنت كے سب طريقوں پر عمل كر سكے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب