جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

کیا کوئی غریب آدمی زکاۃ دہندہ کو اپنی طرف سے زکاۃ وصولی کا نمائندہ بنا سکتا ہے؟

سوال

کیا میں کسی ایسے آدمی کو یہ کہہ سکتا ہوں جو مجھے اپنے مال کی زکاۃ دینا چاہتا ہے کہ: "میں نے آپ کو اپنے لیے اس زکاۃ کی وصولی کا نمائندہ بنا دیا ہے" واضح رہے کہ ہم کرونا کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

غریب آدمی کسی امیر شخص کو اپنی زکاۃ وصول کرنے کا نمائندہ بنا سکتا ہے کہ وہ غریب کے لیے زکاۃ وصول کرے، اس طرح زکاۃ کی یہ رقم امیر آدمی کے پاس رہے اور غریب آدمی جب چاہے اسے وصول کر لے۔

علامہ عبد الرحمن بن قاسمؒ "حاشية الروض" (3/ 293) میں لکھتے ہیں:
زکاۃ کی ادائیگی اور زکاۃ پر غریب آدمی کی ملکیت کے لیے یہ شرط ہے کہ: غریب اس پر قبضہ کر لے، قبضے سے قبل زکاۃ کے مال میں تصرف جائز نہیں ہے۔

اگر کوئی فقیر آدمی صاحب زکاۃ کو ہی زکاۃ وصولی کے لیے اپنا نمائندہ بنا دے کہ خود اپنے آپ سے بہ حق فقیر زکاۃ وصول کر لے ، یا صاحب زکاۃ غریب کے کہنے پر اس کے لیے لباس یا کوئی اور ضرورت کی چیز خریدے تو یہ جائز ہے۔ " ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان اپنی زکاۃ کی رقم سے عینی چیزیں خرید کر رقم کی بجائے یہی عینی چیزیں دے تو یہ جائز نہیں ہے، اہل علم کا کہنا ہے کہ رقم غریب آدمی کے لیے زیادہ بہتر ہے؛ اس لیے رقم میں وہ جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے لیکن عینی چیزوں میں یہ ممکن نہیں؛ کیونکہ بسا اوقات ایسا ممکن ہے کہ ان غریبوں کو عینی چیزوں کی ضرورت ہی نہ ہو اور وہ انہیں کم قیمت میں فروخت کر دیں۔

اگر آپ کو خدشہ ہو کہ غریب گھرانے کے لوگ ضروریات کی جگہ پر خرچ نہیں کریں گے تو اس خدشے کے حل کا طریقہ یہ ہے کہ اس غریب گھرانے کے سربراہ یعنی والد یا ماں یا بھائی ، یا چچا سے بات کریں ، تو انہیں بتلائیں کہ یہ میرے پاس زکاۃ کی رقم ہے تو آپ مجھے بتلائیں کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ تو میں آپ کو وہ اشیا خرید کر دے دیتا ہوں۔ اس طریقے کو اپنائے تو یہ جائز ہے، اور زکاۃ صحیح جگہ پر بھی استعمال ہو سکے گی۔" ختم شد

تو اس صورت میں زکاۃ دہندہ کو ہی زکاۃ کی رقم سے اشیائے ضرورت خریدنے کا کہا گیا ہے، یعنی زکاۃ دہندہ کو صرف زکاۃ وصولی کی ہی ذمہ داری نہیں دی گئی بلکہ اس سے بڑھ کر ذمہ دار بنایا گیا ہے، تو اس میں وہ پہلے اپنے آپ سے زکاۃ وصول کرتا ہے پھر اگلا قدم اٹھاتا ہے، اگرچہ غریب یا زکاۃ دہندہ اس چیز کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں کرتے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب