جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

چہرہ صاف كرانے كا حكم

34215

تاریخ اشاعت : 19-01-2009

مشاہدات : 8994

سوال

چہرہ چھلوانا يعنى چہرے كے اوپر والى خارجى جلد كو زائل كروانے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

چہرے كو چھلوانا ايك ايسى پلاسٹك سرجرى آپريشن ہے جو خوبصورتى كے ليے ہوتى ہے، اور بعض افراد بڑھاپا چھپانے كے ليے ايسا كرتے ہيں، يعنى بڑھاپے اور بڑى عمر كے آثار چھپانے كے ليے كيا جاتا ہے، تا كہ وہ شخص زيادہ نوجوان نظر آئے.

اس طرح كى پلاسٹك سرجرى ايسے اسباب دوافع پر مشتمل نہيں جس كى بنا پر يہ آپريشن كروانا جائز ہو، اور اس نوع كى پلاسٹك سرجرى نہ كروانے كى وجہ سے انسان كو كوئى تكليف اور مشقت نہيں ہوتى، بلكہ اس ميں تو انتہائى چيز تغيير خلق اللہ، اور لوگوں كا اپنى خواہشات و شہوات كے مطابق كھيلنا ہے، جو كہ حرام ہے ايسا كرنا جائز نہيں، اس دلائل ذيل ميں بيان كيے جاتے ہيں:

1 - اللہ سبحانہ و تعالى نے شيطان كا قول نقل كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور ميں انہيں ضرور حكم دونگا كہ وہ اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں بگاڑ پيدا كريں النساء ( 119 ).

يہ آيت اس پر دلالت كرتى ہے كہ تغيير خلق اللہ ان حرام كاموں ميں شامل ہے جسے شيطان نافرمان قسم كے بنى آدم كے ليے بنا سنوار كر پيش كرتا ہے.

2 - بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خوبصورتى كے ليے جسم گودنے، اور جسم گدوانے والى، اور ابرو كے بال اتارنے اور اتروانے والى، اور دانتوں كو رگڑ كر باريك كرنے اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى پيدا كرنے واليوں پر لعنت فرمائى "

پھر عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ مجھے كيا ہے كہ ميں اس پر لعنت نہ كروں جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5931 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2125 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 21119 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ كام كرنے واليوں پر لعنت فرمائى ہے، اور اس كى علت بيان كرتے ہوئے اسے تغير خلق اللہ قرار ديا ہے، اور تغير خلق اللہ اور حسن و خوبصورتى حاصل كرنے كو جمع كيا ہے، اور چہرے كے اوپر والى جلد كو زائل كرنے كے ليے چہرہ چھلوانے ميں يہ دونوں معنے پائے جاتے ہيں، كيونكہ حسن و خوبصورتى زيادہ حاصل كرنے كے مقصد سے ايسا كيا جاتا ہے، تو اس طرح يہ اس شديد قسم كى وعيد لعنت ميں شامل ہو گا، اور ايسا كرنا جائز نہيں.

اور بعض لوگ اس ميں كچھ لنگ قسم كے عذر تراشتے اور پيش كرتے ہيںن اور انكار كرتے ہوئے كوئى ايسا سبب ايجاد كرنے كى كوشش كرتے ہيں جو اس طرح كى پلاسٹك سرجرى كو جائز كر دے كہ وہ شخص بذاتہ نفسياتى طور پر اس سے تكليف محسوس كرتا ہے، يا پھر خوبصورتى و حسن كامل نہ ہونے كى بنا پر دنياوى اہداف حاصل كرنے ميں كامياب نہيں ہو سكتا وہ شخص كمزور ايمان كا مالك ہے، تو اس طرح كے وسوسوں اور وہموں كا علاج يہ ہے كہ دلوں ميں ايمان ك وجاگزيں كيا جائے، اور اس كى پختگى كى جائے.

اور دل ميں اللہ تعالى كے تقسيم كردہ حسن و جمال اور شكل و صورت پر رضا پيدا كى جائے، اور يہ معلوم ہونا چاہيے كہ مظاہر يعنى ظاہر طور پر خوبصورتى ہى ايسى چيز نہيں كہ جس سے قيمتى قسم كے اہداف تك پہنچا جا سكتا ہے، اور بہتر قسم كےمقاصد حاصل ہوتے ہوں.

بلكہ يہ چيز تو اللہ تعالى كى توفيق اور پھر شريعت مطہرہ پر عمل پيرا ہو كر اور اداب حميدہ اور مكارم اخلاق اپنانے سے حاصل ہوتى ہے.

ديكھيں كتاب: احكام الجراحۃ الطبيۃ تاليف ڈاكٹر محمد المختار شنقيطى صفحہ ( 191 - 198 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب