جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

جھاد كى مشروعيت ميں حكمت

34647

تاریخ اشاعت : 15-03-2014

مشاہدات : 6919

سوال

مسلمان جھاد كيون كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالى نے مسلمانوں پر جھاد فى سبيل اللہ فرض كيا ہے، اس ليے كہ اس كے نتيجہ ميں بہت سى مصلحتيں مرتب ہوتى ہيں، اور اس ليے بھى كہ جھاد ترك كرنے ميں بہت سى خرابياں و نقصانات اور فساد پيدا ہوتا ہے.

ذيل ميں جھاد فى سبيل اللہ كى مشروعيت ميں كيا حكمت ركھى ہيں ان كا مختصرا ذكر كيا جائے گا:

1 - جھاد كا اساسى اور رئيسى مقصد اور ھدف و ٹارگٹ يہ ہے كہ لوگوں سے اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت كروائى جائے، اور انہيں بندوں كى غلامى سے نكال كر بندوں كے پروردگار اور ان كے رب كى غلامى ميں لايا جائے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:

اور ان سے اس وقت تك جنگ كرو جب تك فتنہ ( شرك ) مٹ نہ جائے اور اللہ تعالى كا دين غالب نہ آجائے، اگر تو يہ باز آجائيں اور رك جائيں ( تو تم بھى رك جاؤ ) زيادتى تو صرف ظالموں پر ہى ہے البقرۃ ( 193 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح فرمايا:

اور تم ان سے اس وقت تك لڑو اور جنگ كرو جب تك فتنہ باقى ہے، اور دين اللہ ہى كا ہو جائے، اور اگر وہ باز آجائيں تو جو وہ اعمال كر رہے ہيں اللہ تعالى انہيں خوب ديكھ رہا ہے الانفال ( 39 ).

ابن جرير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

لھذا تم اس وقت تك ان كے ساتھ جنگ اور قتال كرتے رہو جب تك شرك ختم نہ ہو جائے، اور اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت نہ كى جانے لگے، تو زمين ميں اللہ تعالى كے بندوں سے مصائب ختم ہو جائيں، جو كہ فتنہ ہے، اور سارے كا سارا دين اللہ تعالى كے ليے ہى ہو كر رہ جائے، حتى كہ اطاعت و فرمانبردارى اور سارى كى سارى عبادت خالصتا اللہ تعالى كى ہونے لگے، كسى اور كہ نہ ہو. اھـ

اور ابن كثير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ وتعالى نے فتنہ كے خاتمہ اور دين اللہ تعالى كے ليے ہوجانے تك كفار سے جنگ كرنے كا حكم يا ہے، يعنى دنيا ميں شرك باقى نہ رہے اور سب اديان پر اللہ تعالى كا دين ہى غالب ہو كر رہ جائے. اھـ

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مجھے اس وقت تك جنگ كرنے كا حكم ديا گيا ہے جت تك لوگ يہ گواہى نہ دينے لگيں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز قائم كرنے لگيں، اور زكاۃ ادا كرنے لگيں، لھذا جب وہ يہ كام كرنے لگيں گے تو انہوں نے مجھے سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ كر ليے مگر اسلام كے حق كے ساتھ، اور ان كا حساب اللہ تعالى كے سپرد"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 24 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2831 ).

اور ايك حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" ميں قيامت سے قبل تلوار دے كر بھيجا گيا ہوں حتى كہ اللہ وحدہ لاشريك كى عبادت ہونے لگے"

مسند احمد حديث نمبر ( 4869 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2831 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اللہ تعالى كے دشمنوں سے معركہ كے وقت صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كے ذہن ميں بھى يہ ہدف اور ٹارگٹ موجود تھا:

جبير بن حيہ بيان كرتے ہيں كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے مختلف ممالك ميں مشركوں كے خلاف جنگ كے ليے لوگوں كو روانہ كيا ....

ہميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے روانہ كيا اور ہمارا امير نعمان بن مقرن كو بنايا جب ہم دشمن كى سرزمين ميں پہنچے اور كسرى كا گورنر ہمارے مقابلہ كے ليے چاليس ہزار كا لشكر لے كے نكلا، تو ترجمان كہنے لگا:

تم ميں سے ہمارے ساتھ كوئى شخص بات چيت كرے، تو مغيرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: جو چاہتے ہو سوال كرو،

وہ كہنے لگا: تم كون ہو؟

انہوں نے جواب ديا: ہم عرب لوگ ہيں، ہم بہت شدت كى پياس اور تنگى ميں تھے، حتى كہ بھوك كى بنا پر ہم چمڑا، گٹھلياں چوسا كرتے تھے، اور بالوں اور كھال كا لباس زيب تن كيا كرتے تھے، اور درخت و پتھروں كے سامنے سجدہ ريز ہوتے تھے، ہم اسى حالت ميں تھےتو اللہ رب العزت جو آسمانوں و زمين كا مالك اور رب ہے اس كا ذكر بلند و بالا اور اس كى عظمت عظيم الشان ہے، نے ہمارى طرف ہم ميں سے ہى ايك نبى بنا كر مبعوث كيا، ہم اس كے ماں باپ كو جانتے تھے، ہمارے نبى اور ہمارے رب كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ:

ہم تمہارے ساتھ اس وقت تك جنگ اور لڑائى كريں جب تك تم اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت نہ كرنے لگ جاؤ، اور يا پھر جزيہ اور ٹيكس ادا كرو اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے رب كے پيغام كے ساتھ ہميں يہ بتايا كہ ہم ميں سے جو بھى قتل ہو گا وہ جنت كى نعمتوں ميں داخل ہو گا اس جيسى نعمت كسى نے كبھى ديكھى تك نہيں، اور ہم سے جو بھى باقى رہے گا وہ تمہارى گردنوں كا مالك بنے گا.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2925 ).

صحابہ كرام اور مسلمان كمانڈر حضرات اس حقيقت كا اعلان اپنى جنگوں اور عزوات ميں كرتے رہے ہيں.

اور جب فارسيوں كے كمانڈر انچيف رستم نے ربعى بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے سوال كيا كہ تمہيں كونسى چيز كھينچ لائى ہے؟ تو انہوں نے جواب ديا تھا:

اللہ تعالى نے ہميں اس ليے بھيجا ہے كہ جسے چاہے ہم اسے بندوں كى غلامى سے نكال كر اللہ تعالى كى عبادت كى طرف لے چليں.

اور جب عقبہ بن نافع طنجہ تك جا پہنچے تو انہوں اپنا گھوڑا پانى ميں ڈال ديا حتى كہ گھوڑا سينے تك پانى ميں چلا گيا تو كہنے لگے:

اے اللہ گواہ رہنا ميں آخرى كوشش تك جا پہنچا ہوں، اور اگر آگے يہ سمندر نہ ہوتا تو ميں تيرے ساتھ كفر كرنے والے ہر شخص كے ساتھ جنگ كرتا ہوا ملكوں تك جاتا، حتى كہ تيرے علاوہ كسى اور كى عبادت كرنے والا باقى نہ بچتا.

2 - مسلمانوں پر زيادتى اور ظلم كرنے والوں كے ظلم و زيادتى كو دور كرنا.

علماء كرام كا اجماع ہے كہ مسلمانوں پر كفار كى ظلم و زيادتى كو روكنا قدرت ركھنے والے پر فرض عين ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم اللہ تعالى كے راستے ميں ان لوگوں كے ساتھ جنگ كرو جو تم سے جنگ كرتے ہيں، اور زيادتى نہ كرو بلا شبہ اللہ تعالى زيادتى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا البقرۃ ( 190 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

تم ان لوگوں كى سركوبى كے ليے جنگ كيوں نہيں كرتے جنہوں نے اپنى قسموں كو توڑ ديا اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو جلاوطن كرنے كى فكر ميں ہيں، اور خود ہى انہوں نے تم چھيڑخانى كرنے ميں ابتدا كى ہے، كيا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ تعالى ہى زيادہ مستحق ہے كہ تم اس سے ڈرو اور اس كا خوف ركھو بشرطيكہ تم ايمان والے ہو التوبۃ ( 13 ).

3 - لوگوں سے فتنہ و فساد ختم كرنا:

فتنے كئى اقسام وانواع كے ہيں:

اول:

مسلمانوں كو دين اسلام سے مرتد كرنے كے ليے كفار جو مختلف قسم كى تنگياں اور تكليفيں ديتے ہيں، اللہ تعالى نے كمزور اور ضعيف مسلمانوں كو بچانے كے ليے جھاد مشروع كرتے ہوئے فرمايا:

اور تمہيں كيا ہو گيا ہے كہ تم اللہ تعالى كے راستے ميں ان كمزور مردوں اور عورتوں اور ننھے ننھے بچوں كے چھٹكارے كے ليے جنگ كيوں نہيں كرتے؟ جو يوں دعائيں مانگ رہے ہيں كہ اے ہمارے پروردگار ہميں ان ظالموں كى بستى سے نجات دے اور ہمارے ليے خود اپنے پاس سے حمايتى مقرر فرما دے، اور ہمارے ليے خاص اپنے پاس سے مدد گار بنا النساء ( 75 ).

دوم:

كفار كا اپنى جانوں كے متعلق فتنہ اور ان كا حق نہ سننا اور قبول نہ كرنا:

يہ اس ليے كہ كفريہ نظام لوگوں كى فطرت اور عقلوں كو خراب كر كے ركھ ديتے ہيں، اور غير اللہ كى عبادت كرنے كى تربيت، اور شراب نوشى اور جنسى خرابيوں ميں پڑنے كا عادى بنانے كے ساتھ ساتھ اخلاق فاضلہ سے چھٹكارا دلاتے ہيں.

اور جو كوئى بھى ايسا بن جائے وہ حق كو بہت ہى كم قبول كرتا ہے، اور حق و باطل كے مابين پہچان بھى نہيں كرپاتا، اور نہ ہى اسے خير اور شر كى پتہ چلتا ہے، اور نيكى اور برائى كى پہچان بھى جاتى رہتى ہے.

لھذا يہ سارى اشياء جو لوگوں كو حق سننے اور قبول كرنے اور اس كى پہچان كرنے ميں حائل ہوتى ہيں انہيں ختم كرنے اور گرانے كے ليے جھاد فى سبيل اللہ مشروع كيا گيا.

4 - اسلامى مملكت كو كفار كے شر سے محفوظ كرنا.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفر كے اماموں اور ليڈروں كو قتل كرنے كا حكم ديا جو دشمنوں كو مسلمانوں كے خلاف ابھارتے رہتے تھے، مثلا: كعب بن اشرف اور ابن ابى الحقيق جو يہودى سردار تھے.

اور اس ميں كفار سے سرحدوں كى حفاظت كرنا بھى شامل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى رغبت دلاتے ہوئے فرمايا:

" اللہ تعالى كے راستے ميں ايك دن كا پہرہ دنيا اور جو كچھ اس پر ہے سے بہتر ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2678 ).

5 - كفار كو دہشت زدہ اور انہيں ذليل و رسوا كرنا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تم ان ( كفار ) سے جنگ كرو اللہ تعالى انہيں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، اور ذليل و رسوا كرے گا، ان كے خلاف تمہارى مدد فرمائےگا، اور مسلمانوں كے كليجے ٹھنڈے كرے گا، اور ان كے دلوں كے غيض و غضب دور كرے گا، اور وہ جس كى طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے، اللہ تعالى جانتا بوجھتا اور حكمت والا ہے التوبۃ ( 14 - 15 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور تم ان كے مقابلے كے ليے اپنى طاقت بھر قوت كى تيارى كر كے ركھو اور گھوڑوں كو تيار كر كے ركھو، كہ اس سے تم اللہ تعالى كے اور اپنے دشمنوں كو خوفزدہ ركھ سكو گےالانفال ( 60 ).

اور اسى ليے جنگ ميں ايسى اشياء مشروع كى گئى ہيں جو دشمن كے دلوں ميں رعب كا سبب بنتى ہيں.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا كہ:

كيا جنگ ميں يا دشمن كا ايلچى آنے كے وقت فوجى ريشم يا سونا چاندى پہن سكتا ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:

دشمن پر رعب ڈالنے كے ليے ريشمى لباس زيب تن كرنے ميں علماء كرام كے دو قول ہيں، ان دونوں قولوں ميں صحيح يہى ہے كہ ايسا كرنا جائز ہے، كيونكہ شام كے فوجيوں نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا كہ جب ہم دشمن كے مقابلہ ميں جاتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ انہوں نے اپنا اسلحہ ريشم كے ساتھ ڈھانپا ہوا ہوتا ہے تو اس كى بنا پر ہمارے دلوں ميں رعب طارى ہو جاتا ہے.

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں جواب ميں لكھا:

جس طرح وہ اپنا اسلحہ چھپاتے ہيں تم بھى اپنا اسلحہ چھپاؤ، اور اس ليے كہ ريشم پہننا تكبر كى علامت ہے، اور اللہ تعالى جنگ كے وقت تكبر پسند فرماتا ہے، جيسا كہ سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان مروى ہے:

( تكبر ايسا بھى ہے جسے اللہ تعالى پسند فرماتا ہے، اور تكبر ايسا بھى ہے جو اللہ تعالى كو ناپسند ہے، اور اسے ناراض كرتا ہے، جو تكبر اللہ تعالى كو پسند ہے وہ دوران جنگ تكبر كرنا ہے، اور جو تكبر اللہ تعالى كو ناپسند ہے وہ بغاوت اور فخر ميں تكبر ہے ).

احد كى لڑائى ميں ابو دجانہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ نے صفوں كے درميان تكبرانہ چال چلى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا:

" يہ چال ايسى ہے جسے اللہ تعالى ناپسند كرتا ہے، ليكن اس جگہ نہيں" اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 28 / 17 ).

6 - منافقوں كو ظاہر كرنا:

فرمان بارى تعالى ہے:

پھر جب كوئى صاف مطلب والى سورت نازل كى جاتى ہے، اور اس ميں قتال كا ذكر كيا جاتا ہے تو آپ ديكھتے ہيں كہ جن دلوں ميں بيمارى ہے وہ آپ كى طرف اس طرح ديكھتے جيسے اس شخص كى نظر ہوتى ہے جس پر موت كى بے ہوشى طارى ہومحمد ( 20 ).

مسلمانوں كى وسعت اور كشادگى كى حالت ميں ہو سكتا ہے كچھ لوگ ايسے بھى مسلمانوں ميں شامل ہو جائيں جو مادى حالت سنوارنا چاہتے ہوں اور ان كا مقصد كلمہ كفر پر اللہ تعالى كا كلمہ بلند كرنا نہ ہو، اور ان لوگوں كا معاملہ بہت سے مسلمانوں پر مخفى رہے، تو اسے ظاہر كرنے والى سب سے چيز جھاد ہى ہے، كيونكہ جھاد ميں تو جان خرچ كرنى پڑتى ہے، اور اس منافق نے تو نفاق اسى ليے اختيار كيا ہے تا كہ وہ اپنى روح اور جان بچا سكے.

اور جو كچھ جنگ احد ميں مومنوں كے ساتھ ہوا اس ميں بھى اللہ تعالى كى حكمت تھى كہ منافقوں كو ظاہر كيا جائے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

جس حال پر تم ہو اسى پر اللہ ايمان والوں كو نہ چھوڑ دے گا جب تك كہ پاك اور ناپاك كو الگ الگ نہ كر دےآل عمران( 179 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يعنى جس حالت ميں تم ہو اللہ تعالى تمہيں اسى حالت ميں نہيں چھوڑ دے گا، كہ مومن اور منافق خلط ملط رہيں، بلكہ اللہ تعالى اہل ايمان كو اہل نفاق سے ممتاز كر كے ركھ دے گا، جيسا كہ انہيں معركہ احد ميں آزمائش كے ساتھ ممتاز كيا.

اور اللہ تعالى اس غيب پر مطلع نہيں كرے گا جو ان كے اور ان كے مابين تميز كردے، كيونكہ وہ اس كے غيب ميں اور اس كے علم ميں بھى متميز ہيں، وہ اللہ سبحانہ تعالى چاہتا ہے كہ ان كے مابين واضح تميز كردے، تو وہ معلوم ہو جائے غيب شھادہ ہے. اھـ

7 - مومنوں كا گناہوں سے چھٹكارا:

يعنى ان كا گناہوں سے بچنا اور اس سے چھٹكارا حاصل كرنا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:

اور ہم ان دنوں كو لوگوں كے درميان ادلتے بدلتے رہتے ہيں، ( معركہ احد ميں يہ وقت شكست ) اس ليے تھى كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو ظاہر كر دے اور تم ميں سے بعض كو شہادت كا درجہ نصيب فرمائے، اللہ تعالى ظالموں سے محبت نہيں كرتا، ( يہ وجہ بھى تھى ) كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو بالكل الگ كر دے اور كافروں كو مٹا دے، كيا تم سمجھ بيٹھے ہو كہ تم جنت ميں چلے جاؤ گے حالانكہ ابھى تك اللہ تعالى نے يہ ظاہر نہيں كيا كہ تم ميں سے جہاد كرنے والے كون ہيں اور صبر كرنے والے كون ہيں؟ آل عمران ( 14 - 142 ).

8 - غنيمتوں كا حصول:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں قيامت سے قبل تلوار دے كر مبعوث كيا گيا ہوں تا كہ صرف ايك اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت كى جائے، اور ميرا رزق ميرے نيزے كے سائے ميں ركھا گيا ہے، اور جس نے بھى ميرے كام كى مخالف كى اس پر ذلت و پستى مسلط كر دى گئى ہے، اور جو كوئى كسى قوم كے مشابھت اختيار كرتا ہے وہ انہى ميں سے ہے"

مسند احمد حديث نمبر ( 4869 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 2831 ).

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث اس امت كے غنيمتوں كے حلال ہونے كا اشارہ ہے، اور اس يہ بيان ہوا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا رزق اسى ميں ركھا گيا ہے، نہ كہ اس كے علاوہ كسى اور آمدن ميں، اور اسى ليے بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ يہ كمائى كا سب سے افضل ترين ذريعہ ہے. اھـ

اور امام قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى روزى ان كى فضيلت كى بنا پر ان كى كمائى ميں ركھى، اور اسے سب سے بہتر اور افضل كمائى اور آمدن كى قسم ميں ركھا، اور وہ يہ كہ اپنے شرف كى بنا پر قھر اور غلبہ كے ساتھ حاصل كرنا. اھـ

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غزوہ بدر ميں ابوسفيان رضى اللہ تعالى عنہ كے قافلہ كے ليے نكلے تھے.

قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قافلہ پر حملہ كرنے كے ليے نكلنا غنيمت كے حصول كے ليے نكلنے كے جواز كى دليل ہے، كيونكہ يہ حلال كمائى ہے، اور يہ مالك رحمہ اللہ كا رد ہے كہ جب انہوں نے يہ كہا كہ يہ قتال دنيا كے حصول كے ليے تھا. اھـ

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( ابن ابى جمرہ كا كہنا ہے كہ: محققون كہتے ہيں كہ جب پہلا سبب اور باعث اعلاء كلمۃ اللہ ہو تو پھر اس كى طرف جو بھى اضافہ كيا جائے وہ اس كے ليے نقصان دہ نہيں ہے ) اھـ

9 - شھادتوں كا حصول:

فرمان بارى تعالى ہے:

اگر تم زخمى ہوئے ہو تو تمہارے دشمن اور مخالف بھى تو ايسے ہى زخمى ہو چكے ہيں، ہم ان دنوں كو لوگوں كے درميان ادلتے بدلتے رہتے ہيں، ( احد ميں وقتى طور پر شكست اس ليے تھى ) كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو ظاہر كردے اور تم ميں سے بعض كو شہادت كا درجہ نصيب فرمائے، اللہ تعالى ظالموں سے محبت نہيں كرتا، ( وجہ يہ بھى تھى ) كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو بالك الگ كردے اور كافروں كو مٹا كر نيست و نابود كركےركھ دےآل عمران ( 140-141 ).

اللہ تعالى كے ہاں اولياء كے ليے بلند ترين مرتبہ شھادت ہے، اور شھداء ہى اس كے بندوں ميں خاص اور اس كے مقرب بندے ہيں، صديقيت كے بعد شھادت كے علاوہ كوئى مرتبہ اور درجہ نہيں، وہ اللہ سبحانہ وتعالى اپنے بندوں ميں سے شھداء بنانے پسند كرتا ہے، اس اللہ كى محبت ميں ان كے خون بہتے ہيں، اور اس كى خوشنودى كے حصول كے ليے وہ اپنى جانوں كا نذرانہ پيش كرتے، اور اس اللہ تعالى كى رضا اور محبت كو وہ اپنے نفسوں اور جانوں پر ترجيح ديتے ہيں، اور يہ مرتبہ و درجہ اس وقت تك حاصل ہى نہيں ہو سكتا جب تك كہ اس پہنچنے كے اسباب پيدا نہ ہوں، اور وہ دشمنوں كا مسلط ہونا ہے ) اھـ

ماخوزاز: زاد المعاد لابن قيم رحمہ اللہ تعالى .

جو لوگ مسلمانوں كو جھاد سے متنفر كرتے، اور انہيں اس سے خوفزدہ كرتے، اور يہ باور كراتے ہيں كہ جھاد موت ہے، اس سے عورتيں بيوہ ہوتى ہيں اور بچے يتيم ہوتے ہيں، ان ميں يہ حكمت كہاں گئى اور وہ اس عظيم الشان اور جليل القدر حكمت كے متلق كيا كہتے ہيں؟!

10 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اگر اللہ تعالى آپس ميں لوگوں كو ايك دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجديں اور يہوديوں كے معبد اور وہ مسجديں بھى منہدم كردى جاتيں جہاں اللہ تعالى كا نام كثرت سے ليا جاتا ہے، جو اللہ تعالى كى مدد و نصرت كرے گا اللہ تعالى بھى ضرور اس كى مدد و نصرت كرے گا، بيشك اللہ تعالى بڑى قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے الحج ( 40 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور اگر اللہ تعالى بعض لوگوں كو بعض سے دفع نہ كرتا تو زمين ميں فساد پھيل جاتا، ليكن اللہ تعالى دنيا والوں پر فضل و كرم كرنےوالا ہے البقرۃ ( 251 ).

مقاتل رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر اللہ تعالى مسلمانوں كےساتھ مشركوں كو دفع نہ كرے تو مشرك زمين پر غالب آجائيں اور مسلمانوں كو قتل كرنا شروع كرديں، اور مساجد خراب كرديں. اھـ

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" الجواب الصحيح" ميں لكھتے ہيں:

اللہ تعالى مومنوں كے ساتھ كفار كو دفع كرتا اور دونوں گروہوں ميں سے بہتر اور اچھے گروہ كے ساتھ شرير اور برے گروہ كو ختم كرتا ہے، جيسا كہ مجوسيوں كو رومى عيسائيوں كے ساتھ ختم كيا، پھرامت محمديہ كے مومنوں كے ساتھ نصارى كو دفع كيا. اھـ

ديكھيں: الجواب الصحيح ( 2 / 216 ).

اور سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

كافروں اور فاجروں، اہل شر اور فساديوں كے غلبہ كى بنا پر زمين ميں فساد بپا ہو چكا ہے. اھـ

جھاد كى مشروعيت كى بعض حكمتيں يہ تھيں جو ذكر كى گئى ہيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو ان كے دين كى طرف بہتر اور اچھے طريقے سے پلٹنے كو توفيق نصيب فرمائے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب