الحمد للہ.
اول:
آپ كو چاہيے كہ اول تو انہيں نصيحت كريں اور انہيں حرام اشياء كى تجارت كے برے انجام سے ڈرائيں، اور حرام كمائى اور آمدنى سے بچنے كى تلقين كريں، اللہ كى نافرمانى كرنے والے كو اللہ كى شديد پكڑ اور انجام، اور منكرات و برائى كا ارتكاب كر كے اللہ كے خلاف جنگ كرنے والوں كو وعظ و نصيحت كرنے اور دنيا كا مال قليل اور آخرت كى بہترى اور باقى رہنے والى كى ياد دہانى كرانے كے ليے آپ اپنے ان بھائيوں كا تعاون كريں جو خير و بھلائى پسند كرتے ہيں، اگر تو يہ آپ كى و عظ و نصيحت قبول كر ليں تو الحمد للہ، تو اس طرح وہ آپ كے بھائى ہيں، پھر آپ انہيں يہ بھى نصيحت كريں كہ وہ ہر ايك شخص كو اس كا حق واپس كر ديں، اگر وہ انہيں جانتے ہيں، اور برائى كے بعد اب برائى ترك كر كے نيكى و بھلائى ضرور كريں، اميد ہے اللہ تعالى ان كى توبہ قبول كرتے ہوئے ان كى برائيوں كو بھى نيكيوں ميں بدل ديگا.
تو اس طرح آپ كے ليے ان كے ساتھ ميل جول ركھنا اور ان كا كھانا بھى جائز اور خير و بھلائى كے كاموں كے ليے ان سے چندہ لينا بھى جائز ہو گا، چاہے وہ مسجد كى تعمير كے ليے ہو يا پھر مسجد ميں قالين وغيرہ ڈالنے كے ليے؛ كيونكہ توبہ كرنے اور حسب الامكان حقدار كو اس كا حق واپس كرنے كى وجہ سے ان كے پہلے گناہ معاف ہو گئے ہيں؛ اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جو شخص اپنے پاس آئى ہوئى اللہ تعالى كى نصيحت سن كر رك گيا اس كے وہ ہے جو گزرا، اور اس كا معاملہ اللہ كى طرف ہے .
دوم:
اور اگر وعظ و نصيحت كرنے كے بعد بھى وہ اس حرام كمائى اور آمدنى پر اصرار كريں تو پھر ان سے اللہ تعالى كے ليے بائيكاٹ كيا جائيگا، اور ان كى دعوت كو قبول نہ كريں اور نہ ہى ان كا چندہ قبول كريں؛ تا كہ اس ميں ان كے ليے ڈانٹ اور نصيحت ہو، اور ان كے غلط كام كا انكار بھى ثابت ہو، اور بائيكاٹ كرنے سے اميد يہ ركھى جائے كہ وہ خوف كرتے ہوئے اپنے غلط كام سے رك جائيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.