الحمد للہ.
تشھد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، حنابلہ تشھد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا ركن قرار ديتے ہيں، اور شافعيہ اسے واجب كہتے ہيں، اور امام احمد كى ايك روايت بھى وجوب كى ہے، اور احناف اور مالكى اسے سنت قرار ديتے ہيں.
تشھد ميں درود پڑھنے كے ركن ہونے پر كوئى صريح دليل نہيں ملتى جيسا كہ ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ سبحانہ وتعالى نے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كا حكم ديا ہے تو ہم آپ پر درود كس طرح پڑھيں ؟ "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 405 ).
اس حديث ميں تشھد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كے وجوب كى كوئى دليل نہيں، كيونكہ صحابہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے درود كى كيفيت كے متعلق دريافت كيا تھا، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز ميں درود پڑھنے كى كيفيت كے متعلق دريافت نہيں كيا.
اسى ليے ابو ہريرہ رضى اللہ عنہ كى درج ذيل مرفوع حديث ميں درود پڑھنے كے مسنون ہونے كى دليل پائى جاتى ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى آخرى تشھد سے فارغ ہو تو وہ اللہ تعالى سے چار اشياء كى پناہ كے ليے يہ دعاء پڑھے:
" اللهمّ إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن شر فتنة المسيح الدجال "
اے اللہ ميں جہنم كے عذاب سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں، اور عذاب قبر سے اور زندگى اور موت كے فتنہ سے، اور مسيح الدجال كے فتنہ كے شر سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 588 ).
مندرجہ بالا سطور ميں بيان كردہ كى بنا پر زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ اس عورت نے جو ترك كيا تھا وہ واجب ہو گا، ليكن سنت والا قول زيادہ قوى ہے، ليكن اس ليے كہ اس عورت نے امام كے ساتھ مكمل نماز پائى ہے، اس ليے امام اس نقص كا متحمل ہو گا.
واللہ اعلم .