الحمد للہ.
پہلى شكل اور صورت ميں تو مال كے حصول اور سرمايہ كارى كرنے ميں كسى بھى قسم كا كوئى اشكال نہيں پايا جاتا، كيونكہ يہ قرضہ حسنہ ہے.
ليكن دوسرى قسم حرام كردہ سودى قرض ہے، چاہے فائدہ كا حجم اور تناسب كتنا بھى ہو يہ حرام ہے.
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( ہر وہ قرض جس ميں زيادہ كى شرط ركھى گئى ہو وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے ).
ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس پر سب متفق ہيں كہ ادھار اور قرض لى گئى رقم ميں اگر ادھار دينے والے نے ادھار لينے والے كے ليے زيادہ يا ہديہ دينے كى شرط ركھى ہو اور اس پر اس نے ادھار ليا تو اس پر زيادہ لينا سود ہو گا.
اور ابى بن كعب اور ابن عباس اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كيا گيا ہے كہ: انہوں نے ايسے قرض سے منع كيا جو اپنے ساتھ كوئى منفعت لائے، اور اس ليے كہ يہ معاہدہ رحم دلى اور قربت كا معاہدہ ہے ( يعنى قرض كا ) لہذا جب اس ميں زيادہ كى شرط ركھى جائے تو يہ اپنے موضوع اورمقصد سے نكل جاتا ہے ). ديكھيں المغنى لابن قدامۃ ( 6 / 436 ).
لہذا اگر تو آپ كے ليے پہلى قسم ميں شركت كرنا ممكن ہو تو جو كچھ ہم نے اس كى اباحت ميں ذكر كيا ہے اس كى بنا پر ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور اگر آپ كے ليے ايسا كرنا دوسرى قسم كے ساتھ مشروط ہے كہ آپ دوسرى قسم ميں بھى شريك ہوں تو پھر شراكت حرام ہو گى.
واللہ اعلم .