الحمد للہ.
ہمیں اس روایت کی سند کہیں نہیں ملی، اس روایت کو رافضی اور شیعہ کی کتب بیان کرتی ہیں۔
تاہم وحی کی ثابت شدہ نصوص اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ سچی توبہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین اعمال میں شامل ہے، اور سچی توبہ کرنے والے سے بھی اللہ تعالی محبت فرماتا ہے۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی توبہ قبول کرنے والا ہے اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔[البقرۃ: 222]
اور یہ بات مسلمہ ہے کہ جس سے اللہ تعالی محبت فرمائے تو یقیناً فرشتے بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔
سچی توبہ کرنے والے اور اللہ تعالی کا تقوی اپنے دل میں بٹھانے والے کے لیے اللہ تعالی گناہوں کے ہر قسم کے منفی اثرات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، چاہے فرشتوں کو اس کے گناہوں کا علم ہو یا وہ بھول چکے ہوں، اس چیز کا بندے کی مغفرت ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا
ترجمہ: اور جو بھی اللہ تعالی سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔[الطلاق: 2]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت تقوی الہی اپنانے والے ہر شخص کو شامل ہے۔۔۔ اگر اللہ تعالی کسی کو ہدایت دے اور وہ حق پہچان لے، اللہ تعالی اسے توبہ کرنے کی توفیق الہام کر دے، اور وہ توبہ کر لے تو تائب شخص ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کہ اس نے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہیں۔ اس مرحلے میں پہنچ کر ہی انسان متقی لوگوں میں شامل ہوتا ہے، اور جیسے کہ ان میں شامل ہوا تو یہ اس بات کا حقدار ٹھہرا کہ اللہ تعالی اس کے لیے کشادگی اور تنگی سے نکلنے کا راستہ خود ہی بنا دے؛ کیونکہ ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نبی رحمت اور نبی ملحمہ ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص توبہ کر لے تو شریعت کی رو سے اس کے لیے کشادگی ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (33/ 34–35)
واللہ اعلم