سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اللہ تعالی کے اسماء حسنی کی معرفت کی اھمیت

سوال

اللہ تعالی کے اسماء حسنی کی معرفت کی کیا اھمیت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اللہ تعالی کے اسماء حسنی کی معرفت کی بہت زیادہ اھمیت ہے جو مندرجہ ذیل نقاط سے واضح ہوتی ہے :

1 – یہ کہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے اسماء حسنی اور صفات کا علم مطلق طور پر سب سے اعلی اور اشرف علم ہے ، کیونکہ علم کا شرف معلوم یعنی جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے اس کے شرف سے ثابت ہوتا ہے ، اور اس علم میں جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے اسماء وصفات کا علم ہے ، تو اس علم کے حصول میں مشغول ہونا اور اس کی فھم حاصل کرنا بندے کے لۓ سب سے اعلی اور اشرف کام ہے ۔

اور اسی لۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت ھی واضح طور پر بیان فرما دیا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے بیان کرنے کے اھتمام کی بنا پر ہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم جمیعا نے اس میں کوئ اختلاف نہیں کیا جس طرح کہ بعض دوسرے احکام میں اختلاف کیا ہے ۔

2 – یہ کہ اللہ تعالی کی معرفت اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالی کی خشیت اور اس کی محبت اختیار کی جاۓ ، اوردل میں اسی کا خوف رکھا جاۓ اور ، اور اسی سے امیدیں وابستہ کی جا‏ئيں ، اور اسی اللہ تعالی کے لۓ ہی اپنے اعمال کی خالص کیا جاۓ ، جو کہ سعادت اور عین عبادت ہے ، اور اللہ تعالی کی معرفت اس وقت ہی حاصل ہو سکتی ہے جب اللہ تعالی کے اسماء حسنی کی معرفت حاصل ہو اوران کے معانی کوسمجھا جاۓ ۔

3 – اوراللہ تعالی کی اسماء حسنی ساتھ معرفت ایمان میں زیادتی کا باعث ہے ، شیخ عبدالرحمان بن سعدی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ کہ :

( اللہ تعالی کے اسماء حسنی پر ایمان لانا اور ان کی معرفت توحید کی تینوں اقسام : توحید ربوبیت اور توحید الوھیت اور توحید اسماء وصفات کومتضمن ہے ، اور یہ اقسام ایمان کی روح اور خوشی ہے ، اور روح کا معنی دل کوغمی سےخوشی اور راحت ہے، اور یہ ایمان کی اصل اور اس کی غایت ہے ، لھذا بندے اللہ تعالی کے اسماء حسنی اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرے گا اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ اور یقین قوی ہوگا ) التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان للسعدی ص 41

4 - اللہ تبارک وتعالی نے مخلوق پیدا ہی اس لۓ کی ہے کہ وہ اسے پہچانیں اور اس کی عبادت کریں ، اور یہی وہ چیز ہے جو کہ ان سے انتہائ مطلوب ہے ۔

اس لۓ کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے :

( رسولوں کی دعوت کا لب لباب اور اس کی کنجی معبود برحق کی معرفت وپہچان اس کے اسماءوصفات اور افعال کے ساتھ ہے ، اوراسی معرفت پر رسالت کی شروع سے لیکر آخر تک بنیاد اور دارو مدار ہے ) الصواعق المرسلۃ علی الجھمیۃ والمعطلۃ لابن قیم رحمہ اللہ ( 1/ 150- 151 )

توبندے کااللہ تعالی کی معرفت میں مشغول ہونا اس کام میں مشغول ہونا ہے جس کے لۓ اللہ تعالی نے اسے پیدا فرما یا ہے ، اور اسے ترک و ضائع کرنا ایساکام ہے جس کے لۓ بندہ پیدا کیا گیا ہے اسے نہ کرنا ہے ، اورایمان کا معنی یہ نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دیا جاۓ اوراس کی معرفت اور علم حاصل نہ کیا جاۓ ، اس لۓ کہ حقیقت ایمان یہ ہے کہ بندہ اپنے اس رب کوجانے اور پہچانے اور اس کی معرفت حاصل کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے ، اور اسے اللہ تعالی کی معرفت اسماء وصفات کے ساتھ حاصل کرنے میں کوشش کرنی چاہۓ ، لہذااسے جتنی اللہ تعالی کی معرفت ہوگی اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا ۔

5 - اللہ تعالی کے اسماء حسنی کا علم حاصل کرنا ہر معلوم کے ساتھ علم کا اصل ہے ، جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

( بیشک اللہ تعالی کے اسماء حسنی کا علم ہرمعلوم چیز کے علم کی اساس اوربنیاد ہے ، لھذا یہ معلومات اس کے سوا ہے یا تو اللہ تعالی کی مخلوق ہوگی یا پھر اس کا امر ، اوریا اس چیز کا علم ہوگا جس کی اللہ تعالی نے تکوین کی ہے ،اور یا اس کا علم ہوگا جواس نے مشروع کیا ہے ، اور خلق اور امر کےعلم کا مصدر اللہ تعالی کے اسماء حسنی ہیں ، اوریہ دونوں ( خلق و امر )اسماء کے ساتھ ایسے مرتبط ہے جس طرح کہ تقاضا کی گئ چیز کا ارتباط تقاضا کرنے والے کے ساتھ ہو، اوراسماء حسنی کا شمار ہرمعلوم کے جاننے کا اصل ہے ، اس لۓ کہ معلومات اس کا تقاضا ہیں اور ان سے مرتبط ہیں ۔۔۔) .

ماخذ: بدائع الفوائد لابن قیم ( 1/ 163 ) کتاب اسماء اللہ الحسنی ص 6 -7