الحمد للہ.
حسن سلوك ميں والدہ كا مقام والد سے زيادہ ہے اس ليے والدہ حسن سلوك كى زيادہ مستحق ہے:
بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ لوگوں ميں سے سب سے زيادہ ميرے حسن سلوك كا مستحق كون ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ، اس شخص نے كہا: پھر كون ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ، وہ شخص كہنے لگا: پھر كون ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ، اس شخص نے كہا پھر كون ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرا والد "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5971 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2548)
ابن بطال رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس كا تقاضا يہ ہے كہ والد كى بنسبت والدہ تين حصے زيادہ حسن سلوك كى مستحق ہے، ان كا كہنا ہے كہ: يہ حمل اور پھر وضع حمل اور پھر دودھ پلانے كى صعوبت برداشت كرنے كى بنا پر ہے، اور اس ميں ماں كو انفرادى حيثيت حاصل ہے اور وہى يہ بوجھ اور تكليف برداشت كرتى ہے، پھر والد تربيت ميں شامل ہوتا ہے.
اور اس كا اشارہ مندرجہ ذيل فرمان بارى ميں موجود ہے:
اور ہم نے انسان كو اس كے ماں باپ كے متعلق نصيحت كى ہے، اس كى ماں نے دكھ پر دكھ اٹھا كر اسے حمل ميں ركھا اور اس كى دودھ چھڑائى دو برس ميں ہے لقمان ( 14 ).
اللہ تعالى نے نصيحت ميں برابرى كى اور والدہ كو تين امور ميں خصوصيت سے نوازا.
قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
مراد يہ ہے كہ نيكى اور حسن سلوك ميں والدہ كو زيادہ حق حاصل ہے اور حقوق زيادہ ہونے كے وقت والدہ كے حقوق كو مقدم كيا جائے گا.
اور قاضى عياض رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ نيكى اور احسان ميں والدہ كو والد سے مقدم كيا جائے گا.
اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: نيكى ميں دونوں برابر ہيں، ليكن صحيح پہلا قول ہى ہے. انتہى
ماخوذ از فتح البارى لابن حجر.
اور مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ميں الصحابۃ صحبۃ كے معنى ميں ہے، علماء كرام كا كہنا ہے كہ والدہ كو مقدم كرنے كا سبب اولاد كے متعلق اس كى تكاليف كا زيادہ ہونا ہے، اور ماں كى اولاد پر شفقت اور خدمت كرنا اور حمل اور پھر جننے اور پھر دودھ پلانے كى مشقت برداشت كرنے، اور پھر بچے كى تربيت اور اس كى بيمارى وغيرہ كا خيال كرنے كى بنا پر ہے. انتہى
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے اس جيسے مسئلہ كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
پہلے اپنى والدہ كى جانب سے حج كرو كيونكہ ماں باپ سے نيكى اور حسن سلوك كى زيادہ حقدار ہے، يہ تو فرضى حج ميں ہے، ليكن اگر ماں كى طرف سے نفلى حج ہو اور باپ كا فرضى تو پھر والد كا حج پہلے كيا جائيگا كيونكہ يہ فرضى ہے.
ليكن والد كى جانب سے حج كرنے كے ليے آپ رقم قرض نہ ليں، اور اگر آئندہ برس آپ قدرت ركھيں تو والد كى جانب سے حج كر ليں، اور آپ كا والد كى جانب سے خود حج كرنا كسى دوسرے كو حج ميں نائب بنانے سے بہتر اور افضل ہے، كيونكہ آپ كا اپنے والد كے ليے اخلاص كسى دوسرے كا آپ كے والد كے ليے اخلاص سے زيادہ ہو گا.
اس ليے ہم يہ كہتے ہيں كہ: اپنے والد كى جانب سے حج كرنے كے ليے آپ قرض حاصل نہ كريں تا كہ كسى كو والد كى جانب سے حج بدل كروائيں، بلكہ اس برس جب آپ كو استطاعت حاصل ہے تو اپنى والدہ كى جانب سے حج كر ليں، اور آئندہ برس اگر طاقت ہوئى تو اپنے والد كى جانب سے حج كر ليں. انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 134 ).
واللہ اعلم .