الحمد للہ.
يہ مسئلہ اہل علم كے ہاں رمضان المبارك كى قضاء كے روزوں سے قبل نفلى روزے ركھنا كہلاتا ہے، اور اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
كچھ علماء كرام تو رمضان المبارك كى قضاء كے روزے ركھنے سے قبل نفلى روزے ركھنا حرام قرار ديتے ہيں، كيونكہ فرض كى ابتداء كرنا نفلى سے زيادہ ضرورى ہے، ليكن بعض علماء كرام نے اس كى اجازت دى ہے.
فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جب واجب كى قضاء اور مستحب جمع ہو جائيں تو كيا انسان كے ليے جائز ہے كہ وہ واجب كى قضاء سے قبل مستحب عمل شروع كر دے، اور واجب كى قضاء بعد ميں ادا كرے، يا كہ اسے واجب كى قضاء پہلے ادا كرنا ہوگى، مثلا يوم عاشوراء كا روزہ اس كى قضاء رمضان كے دوران آ گيا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" فرضى اور نفلى روزوں كے متعلق مشروع اور معقول يہى ہے كہ بلاشك نفلى سے پہلے فرضى شروع كيے جائيں؛ كيونكہ فرضى تو اس كے ذمہ قرض ہيں، اور نفلى تطوع ہيں اگر ميسر ہو تو ٹھيك وگرنہ كوئى حرج نہيں.
اس بنا پر جس كے ذمہ رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء ہوں اسے يہ كہا جائيگا كہ: نفلى روزے ركھنے سے قبل پہلے رمضان المبارك كے فرضى روزوں كى قضاء كرو.
اور اگر وہ اپنے ذمہ قضاء كرنے سے قبل نفلى روزے ركھتا ہے اور قضاء كے ليے وقعت ميں وسعت پائى جاتى ہے تو اس كے نفلى روزے صحيح ہونگے، كيونكہ رمضان المبارك كى قضاء كا وقت رمضان سے رمضان تك ہے، اس كے دوران قضاء كے روزے مكمل كرنا ہونگے.
اس ليے جب وقت ميں وسعت پائى جاتى ہے تو نفل جائز ہيں مثلا فرضى نماز جب كوئى شخص فرضى نماز سے قبل نفل ادا كرے اور وقت باقى ہو تو جائز ہے.
اس ليے جس كے ذمہ رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء ہو اور وہ يوم عرفہ يا يوم عاشوراء كے روزے ركھے تو اس كا روزہ صحيح ہے، ليكن اگر وہ ان ايام ميں رمضان المبارك كے قضاء كے روزے ركھے تو اسے دونوں اجر حاصل ہونگے، ايك تو يوم عرفہ كے روزہ كا اور يوم عاشوراء كے روزہ كا اور دوسرا قضاء رمضان المبارك كا.
يہ تو مطلقا نفلى روزے كے متعلق ہے جو رمضان المبارك كے ساتھ مربوط نہيں، ليكن شوال كے چھ روزے رمضان المبارك كے روزوں كے ساتھ مربوط ہيں، اور يہ رمضان المبارك كى قضاء كے بعد ہى ركھے جا سكتے ہيں.
اس ليے اگر كسى نے قضاء رمضان سے قبل شوال كے روزے ركھ ليے تو اسے وہ اجروثواب حاصل نہيں ہوگا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارے سال كے روزے ركھے "
يہ معلوم ہے كہ جس كے ذمہ رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء ہو وہ اس وقت تك رمضان كے روزے ركھنے والا شمار نہيں ہوگا جب تك رمضان كے روزے مكمل نہيں كر سكتا، لوگ اس مسئلہ ميں يہ گمان كرتے ہيں كہ اگر اسے شوال نكلنے كا خدشہ ہو اور اس كے روزے باقى ہوں تو وہ شوال كے چھ روزے ركھ ليتا ہے اور قضاء كے چھوڑ ديتا ہے تو يہ غلط ہے.
كيونكہ يہ چھ روزے تو اس وقت ركھے جائيں گے جب رمضان المبارك كے روزے انسان مكمل كر لے "
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 20 / 438 ).
اس بنا پر آپ كے ليے جائز ہے كہ آپ عشرہ ذوالحجہ كے روزے ركھ ليں كہ يہ نفلى ہوں، ليكن افضل و بہتر يہ ہے كہ آپ يہ روزے رمضان المبارك كى قضاء كے روزوں كى نيت سے ركھيں تو ان شاء اللہ آپ كود ونوں اجر حاصل ہونگے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 23429 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .