سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جب عورت طہر كي تحديد ميں غلطي كربيٹھے توكيا وہ گنہگار ہوگي ؟

45885

تاریخ اشاعت : 16-05-2011

مشاہدات : 11863

سوال

جب عورت كوسفيدي نہ آئے بلكہ وہ حيض كا خون ختم ہونے كا انتظار كرے، تو اس طرح ہر طرح اس كي ماہواري كےايام ہر ماہ مختلف ہوتےہيں، توعورت طہر كي تحديد ميں غلطي كرنے كي بنا پر كہيں گنہگار تو نہيں ہو گي مثلا اس نے طہر سمجھا اور غسل كرنے اور نماز كي ادائيگي كےبعد حيض كےآثار ديكھ ليے يا اس كےبرعكس اس نے انتظار كيااور اس كےگمان ميں ابھي طہر نہيں ہوا تواس طرح اس كي نماز فوت ہوگئي، اس كےليے سفيد مادہ كے بغير طہر كي تحديد كرني مشكل ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورتوں كےہاں ماہواري كي عادت ايك دوسري سے مختلف ہوتي ہے، اور ماہواري ختم ہونے كي علامت چاہے كوئي بھي ہو ايك ہي عورت ميں ماہواري مختلف ہوسكتي ہے .

اكثر عورتوں كےہاں تو ماہواري ختم ہونےكي علامت سفيد مادہ كا خروج ہے اور بعض عورتوں كي ماہواري خون ختم ہونے پر ہوتي ہے .

عورت كي ماہواري ختم ہونے كي علامت چاہے كوئي بھي ہو اس كےليے جلدي كرنا جائز نہيں بلكہ اسے علامت كےظاہر ہونے كا انتظار كرنا چاہيے كيونكہ اس كےليے حالت حيض ميں نماز روزہ حلال نہيں حتي كہ وہ پاك صاف ہو جائے .

عورتيں عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا كےپاس تھيلي بھيجا كرتي تھيں جس ميں روئي ہوتي جس ميں زردي ہوتي تھي توعائشہ رضي اللہ تعالي عنہا فرماتيں تم جلدي نہ كرو حتي كہ سفيد مادہ نہ ديكھ لو.

امام بخاري نے اسے كتاب الحيض باب اقبال المحيض وادبارہ ميں تعليقا روايت كيا ہے اور امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں ( 130 )

حديث ميں " الدرجۃ " كا لفظ ہے جس كا معني وہ برتن ہے جس ميں عورت اپني خوشبواور سامان وغيرہ ركھتي ہے.

اور " الكرسف " روئي كو كہتےہيں .

اور جب عورت اپنےاجتھاد اور گمان كي بنا پر طہر كي تحديد ميں غلطي كربيٹھے تو وہ گنہگار نہيں ہوگي كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

اور تم سے بھول چوك ميں جو كچھ ہوجائےاس ميں تم پر كوئي گناہ نہيں ليكن گناہ وہ ہے جس كا ارادہ تم دل سے كرو الاحزاب ( 5 )

اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( بلا شبہ اللہ تعالي نے ميري امت سےغلطي اور بھول چوك اور جس پر انہيں مجبور كرديا گيا ہو وہ معاف كردي ہے ).

سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 2053 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابن ماجۃ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر اس كےگمان ميں ہو كہ وہ پاك صاف ہوچكي ہے اور اس نے نماز ادا كرلي اور روزہ ركھ ليا اور پھر بعد ميں اسے يہ علم ہوا كہ وہ توابھي تك حالت حيض ميں ہے تواسے چاہيے كہ وہ نماز روزہ سے اجتناب كرے حتي كہ پاك صاف ہوجائے اور جو روزے اس نے حالت حيض ميں ركھے تھے ان كي قضا كرے كيونكہ اسے يہ پتہ چل گيا تھا كہ وہ صحيح نہيں اس ليےكہ حيض والي عورت كےروزے صحيح نہيں ہيں .

اور اگراس نے حيض ختم نہ ہونےكا گمان كرتےہوئے نماز ترك كيے ركھي ليكن پھر بعد ميں علم ہوا كہ وہ تو پاك صاف تھي تواس كےذمہ وہ نماز كي قضاء ہوگي .

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے ايسي عورت كےبارہ ميں سوال كيا گيا جس نے اپنے حيض كي عادت سے قبل گدلا پاني ديكھا تو نماز ترك كردي اور پھر بعد ميں عادت كےمطابق خون آنا شروع ہوا تواس كا حكم كيا ہوگا؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالي نےجواب ديا :

ام عطيہ رضي اللہ تعالي عنہا بيان كرتي ہيں ( ہم طہر كےبعد زردي اور گدلا پاني كو كچھ شمار نہيں كرتي تھيں )

تواس بنا پر مجھے تويہ ظاہر ہوتا ہے كہ حيض سےقبل آنےوالا گدلا پاني حيض نہيں اور خاص كر جب عادت سے قبل آيا ہو اور حيض كي علامات ميں سے كمر كي درد مروڑ وغيرہ بھي نہ پائي جائيں تواس كےليے بہتر يہ ہے كہ اس نے اس مدت ميں جونمازيں چھوڑيں ہوں انہيں ادا كرے. اھ ( 11 / 280 )

اور شيخ رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ ذيل سوال بھي كيا گيا:

ايك عورت كو9 دن تك خون آيا تواس نے اسے ماہواري سمجھتےہوئے ان ايام ميں نماز ترك كردي ليكن كچھ ايام كےبعد حقيقتا ماہواري شروع ہو گئي تواسے كيا كرنا ہوگا آياوہ ان ايام كي نماز ادا كرے جس ميں اس نے نماز ترك كردي تھي يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:

افضل تويہي ہے كہ اس نے جوپہلے ايام ميں نماز ترك كي تھي وہ ادا كرے، اور اگر ادا نہيں كرتي توكوئي حرج نہيں اس ليے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاس استحاضہ والي عورت كوحكم نہيں ديا جس نے يہ كہا تھا كہ اسے بہت شديد استحاضہ آتا ہے اور وہ نماز ترك كرديتي ہے، رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاسے يہ حكم ديا كہ چھ يا سات دن حيض شمار كرے اور مہينہ كےباقي ايام ميں نماز ادا كرے آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اسے ان ايام ميں ترك كردہ نمازيں لوٹانے كاحكم نہيں ديا.

اور اگر وہ ان ايام كي نمازيں لوٹائے تويہ بہتر اور افضل ہے كيونكہ ہو سكتا ہے اس سے سوال كرنے ميں كوئي كوتاہي ہوگئي ہو اور اگر نہ بھي لوٹائے تو كوئي حرج والي بات نہيں . اھ ( 11 / 275 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب