سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جب بھى بندہ گناہ كرے اور توبہ كرلے تو كيا اللہ تعالى توبہ قبول كرتا ہے، چاہے كئى بار ہو؟

45887

تاریخ اشاعت : 02-04-2010

مشاہدات : 22210

سوال

اللہ تعالى اپنے بندے كو كب تك بخشتا ہے، جب كوئى بندہ گناہ سے توبہ و استغفار كرلينے كے بعد دوبارہ اسى گناہ كا مرتكب ہو اور پھر توبہ كر لے اور پھر كچھ عرصہ بعد وہى گناہ كر بيٹھے، اور اسى طرح ہوتا رہے، ميرا مقصد ہے كہ اللہ تعالى اسے معاف كرے گا يا كہ اس سے يہ سمجھا جائےگا كہ اس نے اللہ تعالى كے ساتھ سچائى اختيار نہيں كى، خاص كر جب كچھ ہى عرصہ بعد وہ دوبارہ اسى گناہ كا مرتكب ٹھرے، ليكن توبہ و استغفار كرتا رہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب ان لوگوں سے كوئى فحش اور ناشائستہ كام ہو جائے، يا كوئى گناہ كر بيٹھيں تو فورا اللہ تعالى كا ذكر اور اپنے گناہوں كے ليے استغفار كرتے ہيں، فى الواقع اللہ تعالى كے سوا اور كون گناہوں كو بخش سكتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم كسى برے كام پر اڑے نہيں رہتے، يہى ہيں جن كا ان كے رب كى جانب سے مغفرت اور جنتوں كى شكل ميں بدلہ ملےگا، جس كے نيچے سے نہريں جارى ہيں، جن ميں وہ ہميشہ رہيں گے، ان نيك كاموں كے كرنے والوں كا ثواب كيا ہى اچھا ہے آل عمران ( 135 - 136 ).

ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:

قولہ: اور وہ علم ركھتے ہوئے برے كام پر اصرار نہيں كرتے.

يعنى: وہ جلد ہى اپنے گناہوں سے توبہ كرتے اور اللہ تعالى كى طرف رجوع كرليتے ہيں، اور وہ معصيت اور گناہوں كا ارتكاب جارى نہيں ركھتے بلكہ وہ اسے چھوڑ ديتے ہيں، چاہے ان سے وہ گناہ بار بار ہو وہ توبہ كرليتے ہيں.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 408 ).

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" ايك بندہ گناہ كر بيٹھا يا كہا كہ ايك بندے نے گناہ كر ليا تو كہنے لگا: اے ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے يا فرمايا مجھ سے گناہ ہو گيا ہے تو مجھے بخش دے، تو اس كا رب كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس پر مؤاخذہ بھى كرتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ بندہ ركا رہا پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا : اس سے گناہ ہو گيا تو كہنے لگا: ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے مجھے معاف كردے، تو اللہ تعالى كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہوں كو بخشتا ہے اور ان كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ گناہ سے ركا رہا اور پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا اس سے گناہ ہو گيا، راوى كہتے ہيں بندہ كہتا ہے اے ميرے رب ميں گناہ كر بيٹھا ہوں، يا فرمايا: مجھ سے گناہ ہو گيا ہے لھذا مجھے بخش دے تو اللہ تعالى كہتا ہے، كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، يہ تين بار فرمايا... " الحديث

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7507 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2758 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث پر باب كا عنوان يہ ركھا ہے:

گناہوں سے توبہ قبول ہونے كا باب چاہے گناہ اور توبہ ميں تكرار ہو"

اور اس كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ مسئلہ كتاب التوبہ كے شروع ميں بيان ہو چكا ہے، اور يہ احاديث اس پر دلالت ميں بالكل ظاہر اور واضح ہيں، اور يہ كہ اگر گناہ سوبار يا ہزار بھى يا اس سے بھى زيادہ ہو جائے، اور ہر بار توبہ كر لے تو اس كى توبہ قبول ہو گى، اور اسكے گناہ ختم ہوں جائيں گے، اور اگر وہ ان سب گناہوں كے بعد ايك توبہ ہى كرتا ہے تو اس كى توبہ صحيح ہوگى.

ديكھيں: شرح مسلم ( 17 / 75 ).

اور ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى كا قول ہے:

لوگو جو گناہ كر بيٹھا ہے اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرلے، اور اگر دوبارہ گناہ كر لے تو پھر توبہ كرے، اور اگر پھر گناہ ہو گيا تو اسے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، كيونكہ يہ گناہ مردوں كى گردنوں ميں طوق ہيں، اور ان پر مصر رہنا ہلاكت ہے.

اس كا معنى يہ ہے كہ: بندہ كے مقدر ميں جو گناہ ہيں وہ انہيں ضرور كرے گا، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ابن آدم پر زنا ميں سے اس كا حصہ مقدر ہے، وہ اسے لا محالہ طور پر پا كر رہے گا.... "

ليكن اللہ تعالى نے ان گناہوں كے ارتكاب كے نكلنے كا مخرج اور حل بھى ركھا ہے، اور ان گناہوں كو توبہ و استغفار كے ذريعہ مٹا ديا ہے، لھذا اگر بندہ توبہ كر ليتا ہے تو وہ گناہوں كے شر سے نجات حاصل كرليتا ہے، اور اگر وہ گناہوں پراصرار كرتا اور توبہ نہيں كرتا تو ہلاك ہو جاتا ہے.

ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 1 / 165 ).

اور جس طرح اللہ تعالى گناہ اور معصيت كو پسند نہيں كرتا اس نے گناہوں كے ارتكاب پر سزا كى وعيد بھى سنائى ہے، كيونكہ اللہ تعالى كو پسند نہيں كہ اس كے بندے اس كى رحمت سے نااميد ہو جائيں، بلكہ اللہ تعالى پسند كرتا ہے كہ گنہگار اس سے توبہ و استغفار كرے، اور شيطان يہ چاہتا اور پسند كرتا ہے كہ كاش گنہگار بندہ نااميدى ميں پڑ جائے تاكہ اسے توبہ اور اللہ تعالى كى طرف رجوع كرنے سے روكا جا سكے.

حسن بصرى رحمہ اللہ تعالى كو كہا گيا:

كيا ہم ميں سے كوئى ايك شرم محسوس نہيں كرتا كہ وہ گناہ كر كے اپنے رب سے توبہ و استغفار كرتا ہے اور پھر گناہ كرنا شروع كر ديتا ہے، پھر توبہ كرتا اور پھر گناہ كرتا ہے؟

تو انہوں نے جواب ديا:

شيطان كى خواہش يہى ہے كہ كاش وہ اس ميں كامياب ہو جائے، لہذا تم توبہ و استغفار سے اكتاہٹ محسوس نہ كرو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب