سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

صليب كے مشابہ ہار پہننے كا حكم

47060

تاریخ اشاعت : 06-07-2008

مشاہدات : 9625

سوال

ميں نوجوان ہوں، اور ميرى ايك مسلمان دوست ہے جو صليب كے مشابہ قسم كا ہار گردن ميں پہنتى ہے، وہ ہار فرعونى چابى جسے زندگى كے راز كى چابى كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے جو ٹى ( T ) كى شكل ميں صليب كے مشابہ ہوتى ہے، تو كيا يہ ہار حرام ہے يا كہ مباح، اگر وہ ہار فى ذاتہ صليب نہيں تو پھر ميرى دوست كو اس سے پريشانى ہونے كى كوئى ضرورت نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ ہار پہننا حرام ہے؛ كيونكہ يہ فرعونى چابى كى شكل ميں ہے اور يہ معروف و معلوم ہے كہ فرعون كافر تھے، اور كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كفار كے شعار ميں سے كوئى شعار پہنے يا پھر جو كفار كے ساتھ مخصوص ہے اسے زيب تن كرے، اور جب اس چيز ميں يہ بھى ہو كہ وہ صليب كى شكل ميں ہو جس كى نصارى عبادت كرتے ہيں اور يہ اس كى يقينى حرمت كا ايك اور سبب ہے.

صليب والى چيز كے استعمال كو منع كيا گيا ہے، جس چيز ميں صليب ہوتى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے توڑ ديا كرتے تھے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" گھر ميں جو چيز بھى صليب والى ہوتى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے توڑ ديتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5952 ).

اور اس كے ساتھ ساتھ يہ بھى ہے كہ اس ہار كو زيب تن كرنے ميں كفار كى مشابہت بھى ہوتى ہے، جس سے بہت سارى احاديث ميں منع كيا گيا ہے، جن ميں سے ہم چند ايك ذيل ميں بيان كرتے ہيں:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو كوئى بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے وہ انہيں ميں سے ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كى كم از كم حالت يہ ہے كہ كفار سےمشابہت كرنا حرام ہے، اگرچہ اس كا ظاہر كفار كى مشابہت اختيار كرنے والے كے كفر كا تقاضا كرتا ہے "

ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 1 / 237 ).

2 - عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے معصفر سے رنگے ہوئے كپڑے زيب تن كيے ہوئے ديكھا تو فرمايا:

يہ كفار كے لباس ميں سے ہے، تم اسے مت پہنو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2077 ).

مسند احمد ميں اس حديث پر احمد شاكر تعليقا كہتے ہيں:

" يہ حديث صريح نص كے ساتھ لباس، اور زندگى اور ظاہر ميں كفار كے ساتھ مشابہت كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، پہلے دور سے اب تك علماء كرام كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے " اھـ

ديكھيں: مسند امام احمد تحقيق احمد شاكر ( 10 / 19 ).

ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ظاہرى امور ميں مشابہت اختيار كرنے سے اخلاق و اعمال ميں مناسبت اور مشابہت پيدا ہوتى ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار اور عجميوں اور اعراب سے مشابہت اختيار كرنے سے منع فرمايا ہے، اور مرد و عورت منع كيا ہے كہ وہ كسى دوسرى جنس كى مشابہت اختيار كريں، جيسا كہ مرفوع حديث ميں وارد ہے

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہى ميں سے ہے " اھـ.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 154 ).

مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كا خلاصہ يہ ہے كہ يہ ہار پہننا جائز نہيں ہے.

مستقل فتوى كميٹى سے كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنے سے ممانعت كے متعلق دريافت كيا گيا تو اس كا جواب تھا:

" كفار كى ممنوعہ مشابہت سے مراد يہ ہے كہ: جو ان كى مخصوص عادات ہيں، اور جو كچھ انہوں نے دين ميں نئے اعتقادات اور عبادات ايجاد كر ليے ہيں اس ميں ان كى مشابہت كرنا منع ہے، جيسا كہ داڑھى منڈانے ميں كفار كى مشابہت كرنا.....

اور اسى طرح انہوں نے جو تہوار اور موسم بنا ركھے ہيں، اور نيك و صالح لوگوں ميں غلو كر ركھا ہے، اور ان سے مدد اور استغاثہ كرتے اور ان كى قبروں كے گرد طواف كرتے اور ان كے ليےنذر و نياز ديتے اور بكرے ذبح كرتے ہيں.

اور اسى طرح ناقوس و طبل بجانا، اور گردن يا گھروں ميں صليب لٹكانا، يا مثال كے طور پر ہاتھ پر صليب گدوانا ... "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 3 / 249 ).

ايسے ہى فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال بھى كيا گيا:

مسلمان شخص كے ليے صليب پہننے كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر اس كے سامنے صليب پہننے كا حكم بيان كر ديا جائے، اور اسے يہ بتا ديا گيا ہو كہ يہ عيسائيوں كا شعار اور علامت ہے، يہ صليب پہننا ان عيسائيوں كى طرف منسوب ہونے اور جن باطل دين پر وہ ہيں اس پر راضى ہونا ہے، ليكن اس كے باوجود وہ مسلمان صليب پہننے پر مصر ہو تو اس كے كافر ہونے كا حكم لگايا جائيگا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا حكم ہے:

اور جو كوئى بھى تم ميں سے ان كے ساتھ دوستى كريگا تو بلاشك وہ انہى ميں سے ہے، يقينا اللہ تعالى ظالموں كو ہدايت نہيں ديتا المآئدۃ ( 51 ).

اور پھر اس ميں عيسائيوں كے اس وہم و عقيدہ كى موافقت بھى ہوتى ہے كہ انہوں نے عيسى عليہ السلام كو قتل كر ديا ہے، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كى نفى كرتے ہوئے اپنى كتاب عزيز ميں فرمايا ہے:

حالانكہ نہ تو انہوں نے اسے ( عيسى عليہ السلام ) كو قتل كيا، اور نہ ہى اسے سولى پر چڑھايا، ليكن ان كے ليے ( عيسى عليہ السلام كا ) شبيہ بنا ديا گيا النساء ( 157 ).

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 119 ).

دوم:

سائل نے اپنے سوال ميں اشارہ كيا ہے كہ اس كا ايك اس لڑكى كے ساتھ تعلق ہے، اور اس سے دوستى ہے، ظاہر يہى ہے كہ ان دونوں كے مابين يہ تعلق اور دوستى شادى كے بغير ہى قائم ہے، اور ايسا تعلق قائم كرنا حرام ہے، دين اسلام ايسے تعلق قائم كرنے سے منع كرتا ہے؛ كيونكہ كسى بھى مرد كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى اجنبى عورت كے ساتھ رہے، اور اسى طرح كوئى بھى عورت كسى اجنبى مرد كے ساتھ نہيں رہ سكتى، اس ليے كہ ايسا كرنے ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے حرام كردہ افعال كا ارتكاب ہے، جس ميں نرم لہجہ ميں باتيں، اور ايك دوسرے كو ديكھنا، يا پھر خلوت و فحش گوئى اور فحاشى، يا ايك دوسرے كو چھونا وغيرہ شامل ہے.

اور اس ليے بھى كہ اس ميں دل ميں خرابى پيدا ہوتى ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ تعلق، اور اس كى عبوديت ميں بھى خرابى آتى ہے، چاہے حسى طور پر ان دونوں كے مابين فحاشى نہ بھى ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب