سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اسلامى بنك

47651

تاریخ اشاعت : 22-05-2007

مشاہدات : 11212

سوال

كيا اسلامى بنك حلال ہيں يا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو يہ بنك حقيقتا شريعت اسلاميہ كے مطابق لين دين كرتے ہوں اور سودى اور حرام معاملات نہ كريں، اور نہ ہى مدت كے عوض اور مقابل فائدہ جيسے نام سے موسوم سود نہ ليتے ہوں، دو درحقيقت جاہليت كا سود ہے، اگرچہ انہوں نے اس وقت اس كا نام كچھ اور ركھ ليا ہے، اور نہ ہى يہ بنك غير شرعى معاملات كرتے ہوں، مثلا ايسى چيز فروخت كرنا جو اس كى ملكيت اور قبضہ ميں ہى نہ ہو، يا پھر عينہ جو كہ سود كى ايك قسم ہے كى تجارت كرنا، يا اس كے علاوہ دوسرے ايسے معاملات جو شريعت اسلاميہ مباح اور جائز قرار نہيں ديتى، تو پھر بلا شك و شبہ يہ بنك حلال ہيں، اور ان كے ساتھ لين دين كرنا شرعى ہوگا.

ليكن اگر ان كا نام تو صرف اسلامى بنك ہو، ليكن يہ سودى لين دين اور حرام معاملات كرتے ہوں، تو پھر ان بنكوں كے ساتھ معاملات كرنے حرام ہيں، چاہے انہوں نے اسے " اسلامى بنك " كا نام دے ركھا ہو، كيونكہ حقائق اور معانى كا اعتبار ہوتا ہے، نہ كہ بڑى بڑى عمارتوں اور بلڈنگوں كا اور پھر معتبر تو اشياء ہيں نہ كہ ان كے نام.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا اسلامى بنكوں كے ساتھ لين دين كرنا جائز ہے، باوجود اسكے كہ ان ميں سے كچھ بنك شريعت كے خلاف حيلہ بازى سے كام ليتے ہوئے حرام معاملات كا لين دين كرتے ہيں ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" وہ مالى ادارے اور بنك جو سودى لين دين نہيں كرتے ان كے ساتھ لين دين كرنا جائز ہے، اور اگر يہ ادارے اور بنك سودى كاروبار اور لين دين كرتے ہوں تو پھر ان كے ساتھ معاملات كرنے جائز نہيں، اور نہ ہى يہ اسلامى بنك ہيں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13/ 310 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى بھى درج ہے:

" اگر تو بنك اسلامى ہو اور سودى نہ ہو، بلكہ وہ شريعت اسلاميہ كے اصولوں كے مطابق سرمايہ كارى كرتا ہو تو آپ كے ليے اس بنك ميں اپنى رقم سرمايہ كارى كے ليے ركھنا جائز ہے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13/ 365 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب