جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

مغرب كى ا يك ركعت جماعت كے ساتھ پالينے والا شخص باقى نماز كيسے مكمل كرے گا ؟

49037

تاریخ اشاعت : 19-02-2009

مشاہدات : 9826

سوال

اگر ميں مغرب كى نماز ميں جماعت كے ساتھ دوسرى ركعت ميں تشھد كے دوران ملوں تو باقى نماز كيسے مكمل كرونگا ؟
ميں اٹھ كر امام كے ساتھ تيسرى ركعت مكمل كروں اور تشھد كے بعد اٹھ كر اپنى تيسرى ركعت ادا كروں اور تشھد ميں بيٹھوں يا كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آپ مغرب كى نماز ميں جماعت كے ساتھ درميانى تشھد ميں مليں تو آپ تيسرى ركعت ميں امام كى متابعت اور اقتدا كرينگے اور پھر تشھد بيٹھ كر امام كے سلام كے بعد اٹھ كر اپنى باقى مانندہ نماز مكمل كرينگے، آپ دو ركعات باقى ہيں، تو ان ميں سے پہلى ميں آپ سورۃ الفاتحہ اور اس كے بعد كوئى سورۃ پڑھيں، اور پھر تشھد ميں بيٹھيں جو كہ آپ كى درميانى تشھد ہو گى.

پھر اٹھ كر تيسرى ركعت ادا كريں اور اس ميں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھيں، اور پھر آخرى تشھد بيٹھ كر سلام پھير ليں.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے وہ اس پر مبنى ہے كہ اس نے امام كے ساتھ جو ركعت پائى وہ اس كى نماز كا اول حصہ تھا، اور جو وہ انفرادى طور پر ادا كر رہا ہے وہ اس كى نماز كا آخرى حصہ ہے، امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

اگر اس نے امام كے ساتھ ايك ركعت پائى تو وہ امام كے سلام پھيرنے كے بعد اٹھ كر ايك ركعت ادا كر كے تشھد بيٹھے گا اور پھر تيسرى ركعت ادا كر كے تشھد بيٹھے گا "

ديكھيں: المجموع ( 4 / 117 ).

پھر كہتے ہيں:

( ہم ذكر كر چكے ہيں كہ ہمارا مسلك يہ ہے كہ مسبوق نے جو جماعت كے ساتھ نماز پائى وہ اس كى نماز كا اول حصہ ہے، اور جو اس نے بعد ميں ادا كى وہ اس كا آخرى حصہ ہے، سعيد بن مسيب، حسن بصرى، عطاء، عمر بن عبدالعزيز، اور مكحول، زھرى، اوزاعى، سعيد بن عبد العزيز، اسحاق، رحمہم اللہ كا يہى قول ہے جو ابن منذر رحمہ اللہ نے ان سے بيان كيا ہے.

اور ميں بھى يہى كہتا ہوں، ان كا كہنا ہے كہ: عمر، على، اور ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے اور ان سے ثابت نہيں، يہ امام مالك سے روايت اور داود كا بھى يہى كہنا ہے.

اور ابو حنيفہ، مالك، ثورى، اور احمد رحمہم اللہ كا كہنا ہے كہ: اس نے جو جماعت كے ساتھ پائى وہ اس كى نماز كا آخرى اور جو بعد ميں ادا كى اس كى نماز كا اول حصہ ہے.

اسے ابن منذر نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ اور مجاھد، ابن سيرين سے بيان كيا ہے، اور ان كى دليل يہ پيش كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم جو پالو وہ ادا كرو، اور جو رہ جائے اس كى قضاء كر لو "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور ہمارے اصحاب نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان سے دليل لى ہے كہ:

" جو تم پالو وہ ادا كرو، اور جو رہ جائے وہ مكمل اور پورى كرلو "

اسے بخارى اور مسلم نے بہت سے طرق سے روايت كيا ہے.

بيھقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جنہوں نے " پورى اور مكمل كرو " روايت كيا ہے وہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے زيادہ حافظ اور التزام كرنے والے ہيں جو كہ حديث كے راوى ہيں تو وہ زيادہ اولى ہيں.

شيخ ابو حامد اور الماوردى كہتے ہيں:

كسى چيز كا اتمام اور پورا كرنا اس وقت ہوتا ہے جب اس كا پہلا حصہ گزر چكا ہو اور اس كى آخرى حصہ باقى ہو.

اور بيھقى نے بھى ہمارے مسلك جيسا ہى عمر بن خطاب، على ، اور ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہم اور ابن مسيب، حسن، عطاء، اور ابن سيرين، ابو قلابہ رحمہم اللہ سے روايت كيا ہے.

اور رہى يہ روايت كہ:

اس كى قضاء كرو"

اس كا جواب دو طرح ہے:

پہلى وجہ:

فاتموا يعنى پورى اور مكمل كرو والى روايت كے رواۃ زيادہ اور احفظ ہيں.

دوسرى وجہ:

قضاء فعل پر محمول ہے، نہ كہ اصطلاح ميں معروف قضاء پر، كيونكہ يہ اصطلاح متاخرين فقھاء كرام كى ہے، اور عرب قضاء كو فعل كے معنى پر اطلاق كرتے ہيں، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جب تم اپنے مناسك ادا كر چكو.

اور فرمان ہے:

جب آپ نماز ادا كر چكيں.

شيخ ابو احمد كہتے ہيں:

مراد يہ ہے كہ: تمہارى نماز ميں سے جو رہ جائے نہ كہ امام كى نماز ميں سے، اور مقتدى كى جو نماز رہ گئى ہے وہ نماز كا آخرى حصہ ہے. واللہ اعلم. اھـ

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

سوال:

ميں مسبوق كى نماز كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں:

1 - جب امام نماز مغرب ميں ايك يا دو ركعت پڑھا چكا ہو.

2 - اگر چار ركعت والى نماز ميں امام ايك يا دو ركعت ادا كر چكا ہو.

مسبوق كيا پڑھے گا، كيا وہ صرف سورۃ فاتحہ پڑھے گا يا كہ اس كے ساتھ كوئى اور سورۃ بھى ؟

جواب:

مسبوق شخص امام كے ساتھ جو نماز پائے وہ مقتدى كى نماز كا اول حصہ شمار ہو گا، چنانچہ جس نے امام كے ساتھ مغرب كى نماز ميں سے ايك ركعت پائى تو وہ نماز كا اول حصہ شمار ہو گا، جب امام كى سلام كے بعد وہ كھڑا ہو كر فوت شدہ نماز كى ركعات مكمل كرے، اور اس ميں سے پہلى ركعت ميں سورۃ فاتحہ اور اس كے ساتھ كوئى اور سورۃ يا كچھ آيات كى تلاوت كرے گا كيونكہ يہ اس كى دوسرى ركعت ہے، اور پھر درميانى تشھد بيٹھےگا، پھر مغرب كى رہ جانے والى آخرى ركعت ميں صرف سورۃ فاتحہ پڑھےگا، كيونكہ يہ اس كى تيسرى ركعت ہے، اور پھر وہ آخرى تشھد بيٹھےگا.

اور اگر اس كى ايك ركعت رہ جائے اور امام كے ساتھ اس نے دو ركعت ادا كيں، تو امام كے سلام پھيرنے كے بعد ادا كرنے والى ركعت ميں صرف سورۃ فاتحہ كى تلاوت كرےگا، كيونكہ يہ اس كى تيسرى ركعت تھى.

ليكن اگر نماز چار ركعت والى ہو اور اس نے امام كے ساتھ تين يا دو ركعت ادا كيں تو باقى مانندہ ركعت ميں صرف سورۃ فاتحہ ہى تلاوت كرےگا، كيونكہ يہ اس كى نماز كا آخرى حصہ ہے، اسے سورۃ فاتحہ كے ساتھ كوئى اور سورۃ كى تلاوت نہيں كرنا ہو گى، فقھاء كرام كے اقوال ميں سے صحيح قول يہى ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 322 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب