سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

آلات موسيقى پر مشتمل اسلامى ترانے اور نظموں سے موسوم اشعار كا حكم

5011

تاریخ اشاعت : 23-10-2007

مشاہدات : 16322

سوال

كيا اسلامى نظميں آلات موسيقى كے ساتھ سننى جائز ہيں، آپ سے گزارش ہے كہ كتاب و سنت پر مشتمل جواب سے نوازيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

قرآنى آيات اور احاديث نبويہ گانے بجانے كے آلات اور موسيقى كى مذمت پر دلالت كرتے ہيں، اور انہيں استعمال نہ كرنے كا كہتے ہيں، اور قرآن مجيد راہنمائى كرتا ہے كہ ايسى اشياء كا استعمال ضلالت و گمراہى اور اللہ تعالى كى آيات كو مذاق بنانے كا باعث ہے.

جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور لوگوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ لوگوں كو بغير علم اللہ كى راہ سے روك سكيں، اور اسے مذاق بنائيں، يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے ذلت آميز عذاب ہو گا لقمان ( 6 ).

اكثر علماء كرام نے لہو الحديث كى تفسير گانا بجانا اور آلات موسيقى اور ہر وہ آواز جو حق سے روكے بيان كى ہے.

امام طبرى ابن ابى الدنيا اور ابن جوزى رحمہم اللہ نے درج ذيل آيت كى تفسير ميں مجاہد رحمہ اللہ كا قول نقل كيا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور ان ميں سے جسے بھى تو اپنى آواز بہكا سكے بہكا لے، اور ان پر اپنے سوار اور پيادے چڑھا لا، اور ان كے مال اور اولاد ميں سے بھى اپنا شريك بنا لے، اور ان كے ساتھ جھوٹے وعدے كر لے، اور ان كے ساتھ شيطان كے جتنے بھى وعدے ہوتے ہيں وہ سب كے سب فريب ہيں الاسراء ( 64 - 65 ).

مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ گانا اور آلات موسيقى اور بانسرى وغيرہ ہيں.

اور طبرى نے حسن بصرى سے ان كا قول نقل كيا ہے كہ: اس كى آواز دف ہيں.

ديكھيں: جامع البيان ( 15 / 118 - 119 ) ذم الملاہى ( 33 ) تلبيس ابليس ( 232 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ اضافت تخصيص ہے، جس طرح اس كى طرف گھڑ سوار اور پيادے كى اضافت كى گئى ہے، چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالى كى اطاعت كے بغير ہو، اور ہر وہ آواز جو بانسرى يا دف يا ڈھول وغيرہ كى ہو وہ شيطان كى آواز ہے " انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 252 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ نے ابن ابى ليلى كى سند سے حديث بيان كى ہے وہ عطاء سے بيان كرتے ہيں، اور وہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ نكلے تو ان كا بيٹا ابراہيم موت و حيات كى كش مكش ميں تھا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيٹے كو گود ميں ركھا تو ان كى آنكھوں سے آنسو بہنے لگے.

تو عبد الرحمن كہنے لگے: آپ رونے سے منع كرتے ہيں، اور خود رو رہے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں رونے سے منع نہيں كرتا، بلكہ دو احمق اور فاجر قسم كى آوازوں سے منع كرتا ہوں، ايك تو مزامير شيطان اور موسيقى كے آلات اور نغمہ كے وقت نكالى جانے والى آواز سے، اور دوسرى مصيبت كے وقت چہرے پيٹنے اور گريبان پھاڑنے كےساتھ آہ بكا كرنے كى آواز "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1005 ) امام ترمذى كہتے ہيں، يہ حديث حسن ہے، اور اسے امام حاكم نے المستدرك ( 4 / 43 ) اور بيہقى نے السنن الكبرى ( 4 / 69 ) اور الطيالسى نے مسند الطيالسى حدي نمبر ( 1683 ) اور امام طحاوى نے شرح المعانى ( 4 / 29 ) ميں نقل كيا ہے، اور علامہ البانى نے اسے حسن قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس سے مراد گانا بجانا اور آلات موسيقى ہيں "

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 88 ).

صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى حلال كر لينگے، اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگى تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے، اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہينگے كل آنا، تو اللہ تعالى انہيں رات كو ہى ہلاك كر ديگا، اور پہاڑ ان پر گرا دے گا، اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا "

امام بخارى نے اسے صحيح بخارى ( 10 / 51 ) ميں معلقا روايت كيا ہے، اور امام بيہقى نے سنن الكبرى ( 3 / 272 ) ميں اسے موصول روايت كيا ہے، اور طبرانى ميں معجم الكبير ( 3 / 319 ) اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان ( 8 / 265 ) ميں روايت كيا ہے، اور ابن صلاح نے علوم الحديث ( 32 ) ميں اور ابن قيم نے اغاثۃ اللھفان ( 255 ) اور تہذيب السنن ( 2 / 1270 - 272 ) اور حافظ ابن حجر نے فتح البارى ( 10 / 51 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 140 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں كہتے ہيں:

" المعازف يہ گانے بجانے كے آلات ہيں، اور قرطبى نے جوہرى سے نقل كيا ہے كہ: معازف گانا ہے، اور ان كى صحاح ميں ہے كہ: يہ گانے بجانے كے آلات ہيں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ گانے كى آوازيں ہيں.

اور دمياطى كے حاشيہ ميں ہے: معازف دف اور ڈھول وغيرہ ہيں جو گانے ميں بجائے جاتے ہيں، اور لہو و لعب ميں بجائے جائيں . انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 55 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس كى وجہ دلالت يہ ہے كہ:

معازف سب آلات لہو كو كہا جاتا ہے، اس ميں اہل لغت كے ہاں كوئى اختلاف نہيں، اور اگر يہ حلال ہوتے تو اسے حلال كرنے كى بنا مذمت نہ كى جاتى، اور نہ ہى اس كا حلال كرنا شراب اور زنا كے ساتھ ملايا جاتا. انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللہفان ( 1 / 256 ).

اس حديث سے گانے بجانے كے آلات كى حرمت ثابت ہوتى ہے، اور اس حديث سے كئى طرح استدلال ہوتا ہے:

پہلى وجہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " وہ حلال كر لينگے "

يہ اس بات كى صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں، تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے، اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنى گانے بجانے كے آلات بھى شامل ہيں.

دوم:

ان گانے بجانے والى اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كى حرمت قطعى طور پر ثابت ہے، اگر ان معازف اور گانے بجانے والى اشياء كى حرمت ميں اس حديث كے علاوہ كوئى ايك آيت يا حديث نہ بھى وارد ہوتى تو اس كى حرمت كے ليے يہى حديث كافى تھى، اور خاص كر اس طرح كے گانے كى حرمت ميں جو آج كل لوگوں ميں معروف ہے، يہ وہ گانے ہيں جس ميں فحش اور گندے قسم كے الفاظ استعمال ہوتے ہيں، اور اسے مختلف قسم كى موسيقى و ساز اور طبلے و ڈھول اور سارنگى و بانسرى، اور پيانو و گٹار وغيرہ كے ساز پائے جاتے ہيں، اور اس ميں آواز ہيجڑوں، اور فاحشہ عورتوں كى ہوتى ہے.

ديكھيں: حكم المعازف للالبانى.

اور تصحيح الاخطاء و الاوھام الواقعۃ فى فھم احاديث النبى عليہ السلام تاليف رائد صبرى ( 1 / 176 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" معازف ہى وہ گانے ہيں جن كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر دى تھى كہ آخرى زمانے ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو شراب و زنا اور ريشم كى طرح اسے بھى حلال كر لينگے، يہ حديث علامات نبوت ميں شامل ہوتى ہے، كيونكہ يہ سب كچھ واقع ہو چكا ہے، اور يہ حديث جس طرح شراب، اور زنا اور ريشم كو حلال كرنے والے كى مذمت پر دلالت كرتى ہے، اسى طرح اس كى حرمت اور اسے حلال كرنے والے كى مذمت پر بھى دلالت كرتى ہے.

گانے بجانے، اور آلات لہو سے اجتناب كرنے والى آيات و احاديث بہت زيادہ ہيں، اور جو شخص يہ گمان ركھتا ہے كہ اللہ تعالى نے گانا بجانا اور آلات موسيقى مباح كيے ہيں اس نے جھوٹ بولا ہے، اور عظيم قسم كى برائى كا مرتكب ہوا ہے، اللہ تعالى ہميں شيطان اور خواہشات كى اطاعت سے محفوظ ركھے.

اور اس سے بھى بڑا اور قبيح جرم تو اسے مباح كہنا ہے، اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ يہ اللہ تعالى اور اپنے دين سے جہالت ہے، بلكہ يہ تو اللہ تعالى اور اس كى شريعت پر جھوٹ بولنے كى جسارت و جرات ہے.

صرف شادى بياہ كے موقع پر دف بجانى جائز ہے، اور يہ بھى صرف عورتوں كے ليے خاص ہے كہ وہ آپس ميں دف بجا سكتى ہيں، تا كہ نكاح كا اعلان ہ اور سفاح اور نكاح كے مابين تميز ہو سكے.

اور عورتوں كا آپس ميں دف بجا كر شادى بياہ كے موقع پر گانے ميں كوئى حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں برائى و منكر پر ابھارا نہ گيا ہو، اور نہ ہى عشق و غرام كے كلمات ہوں، اور يہ كسى واجب اور فرض كام سے روكنے كا باعث نہ ہو، اور اس ميں مرد شامل نہ ہوں، بلكہ صرف عورتيں ہى سنيں، اور نہ ہى اعلانيہ اور اونچى آواز ميں ہو كہ پڑوسيوں كو اس سے تكليف اور اذيت ہو، اور جو لوگ لاؤڈ سپيكر ميں ايسا كرتے ہيں وہ بہت ہى برا كام كر رہے ہيں، كيونكہ ايسا كرنا مسلمان پڑوسيوں وغيرہ كو اذيت دينا ہے، اور شادى بياہ وغيرہ موقع پر عورتوں كے ليے دف كے علاوہ كوئى اور موسيقى كے آلات استعمال كرنا جائز نہيں، مثلا بانسرى گٹار، سارنگى وغيرہ، بلكہ يہ برائى ہے، صرف انہيں دف بجانے كى اجازت ہے.

ليكن مردوں كے ليے دف وغيرہ ميں سے كوئى بھى چيز استعمال كرنى جائز نہيں، نہ تو شادى بياہ كے موقع پر اور نہ ہى كسى اور موقع پر، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو مردوں كے ليے لڑائى كے آلات اور ہنر سيكھنے مشروع كيے ہيں كہ وہ تير اندازى اور گھڑ سوارى اور مقابلہ بازى كريں اور اس كے علاوہ جنگ ميں استعمال ہونے والے دوسرے آلات مثلا ٹينك ہوائى جہاز اور توپ اور مشين گن اور بم وغيرہ جو جھاد فى سبيل اللہ ميں معاون ثابت ہوں.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 3 / 423 - 424 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ علم ميں ركھيں كہ قرون ثلاثہ الاولى جو سب سے افضل تھے اس ميں نہ تو سرزمين حجاز ميں اور نہ ہى شام اور يمن ميں اور نہ مصر اور مغرب ميں، اور نہ ہى عراق و خراسان كے علاقوں ميں اہل دين، اور تقوى و زہد اور پارسا و عبادت گزار لوگ اس طرح كى محفل سماع ميں شريك اور جمع ہوتے تھے جہاں تالياں اور شور شرابہ ہوتا، نہ تو وہاں دف بجائى جاتى اور نہ ہى تالى اور سارنگى اور بانسرى، بلكہ يہ سب كچھ دوسرى صدى كے آخر ميں بدعت ايجادى كى گئى، اور جب آئمہ اربعہ نے اسے ديكھا تو اس كا انكار كيا اور اس سے روكا " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 11 / 569 ).

اور رہا ان نظموں اور ترانوں كا جنہيں اسلامى نظموں اور ترانوں كا نام ديا جاتا ہے، اور ان ميں موسيقى بھى ہوتى ہے، تو اس پر اس نام كا اطلاق اسے مشروع نہيں كرتا، بلكہ حقيقت ميں يہ موسيقى اور گانا ہى ہے، اور اسے اسلامى نظميں اور ترانے كہنا جھوٹ اور بہتان ہے، اور يہ گانے كا بدل نہيں سكتے، تو ہمارے ليے يہ جائز نہيں كہ ہم خبيث چيز كو خبيث چيز سے بدل ليں، بلكہ ہم تو اچھى اور پاكيزہ چيز كو خبيث اور گندى كى جگہ لائينگے، اور انہيں اسلامى سمجھ كر سننا اور اس سے عبادت كى نيت كرنا بدعت شمار ہو گى جس كى اللہ نے اجازت نہيں دى.

اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت كى دعا كرتے ہيں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں:

تلبيس ابليس ( 237 ) المدخل ابن حجاج ( 3 / 109 ) الامر بالاتباع والہنى عن الابتداع للسيوطى ( 99 ) ذم الملاہى ابن ابى الدنيا.

الاعلام بان العزف حرام ابو بكر جزائرى.

تنزيہ الشريعۃ عن الاغانى الخليعۃ

تحريم آلات الطرب للالبانى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد