الحمد للہ.
يقينى اور صحيح بات يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ثواب ہديہ كرنا بدعت ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:
ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ثواب ہديہ كرنے كى نہ تو كوئى ضرورت ہے اور نہ ہى كوئى سبب كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنى سارى امت كے اعمال كا اسى طرح اجر ملتا ہے جس طرح كسى عمل كرنے والے كو، اور ان كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى ہدايت كى راہنمائى كى تو اسے اس پر عمل كرنے والے جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور ان كے اجر ميں كسى بھى قسم كى كمى نہيں كى جاتى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2674 ).
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى ہے:
" جس كسى نے بھى اسلام ميں كوئى اچھا طريقہ شروع كيا اور اس پر عمل كيا جانے لگا تو اس كے بعد اس پر عمل كرنے والے جتنا اجروثواب اس كے ليے لكھ ديا جاتا ہے اور ان كے اجر ميں كوئى كمى نہيں كى جاتى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1017 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے راہنمائى كے سارے طريقے بتا ديے ہيں اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كسى بھى عمل كا ثواب پہنچانے كا كوئى فائدہ نہ ہوا، بلكہ ايسا كرنے ميں تو اس شخص كے ليے خود نقصان دہ ہے كہ اس نے بغير كسى فائدہ كے اپنا ثواب نكال ديا اور كسى دوسرے كو بھى اس كا فائدہ نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہر نيكى كرنے والے كے عمل كا ثواب بھى خود ہى پہنچ جاتا ہے، اور اس عمل كرنے والے نے اپنا عمل بھى ضائع كر ليا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ايصال ثواب كى راہنمائى نہيں فرمائى.
2 ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.
3 ـ سلف صالحين ميں سے سب صحابہ كرام اور خلفاء راشدين اور تابعين عظام ميں سے كسى نے بھى يہ عمل نہيں كيا حالانكہ وہ ہم سے زيادہ بھلائى كو جانتے تھے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے.
" تم ميرى اور خلفاء راشدين مھديين كى سنت كو لازم پكڑو اس پر سختى سے عمل پيرا رہو اور بدعات اور نئے امور ايجاد كرنے سے اجتناب كرو، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4607 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ديكھيں: رسالۃ اھداء الثواب للنبى صلى اللہ عليہ وسلم تاليف شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ.
امام نووى رحمہ اللہ كے شاگرد ابن عطاء نے ان سے سوال كيا:
كيا قرآن مجيد كى تلاوت كر كے اس كا ثواب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہديہ كرنا جائز ہے، اور كيا اس كے متعلق كوئى حديث اور اثر وارد ہے ؟
امام نووى رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" قرآن مجيد كى تلاوت كرنا افضل ترين عبادت اور اللہ كے قرب كا باعث ہے، ليكن اس كا ثواب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہديہ كرنے ميں كوئى بااعتماد اثر وارد نہيں، بلكہ ايسا نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ اس ميں ايسا عمل ہے جس كى اجازت نہيں دى گئى، حالانكہ قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كا ثواب تو ويسے ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حاصل ہوتا ہے اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس شريعت كو لانے اور اس كى راہنمائى كرنے والے ہيں لہذا امت كے باقى سب نيك و صالح اعمال بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ميزان حسنات ميں شامل ہوتے ہيں " انتہى
سخاوى رحمہ اللہ نے اپنے شيخ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے كہ ان سے كسى نے دريافت كيا كہ:
اگر كوئى شخص قرآن مجيد كى تلاوت كرے اور اپنى دعا ميں يہ كہے كہ: اے اللہ ميں نے جو تلاوت كى ہے اس كا ثواب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے شرف كى زيادتى ميں شامل كر دے تو كيا جائز ہے ؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ متاخرين قراء كى اختراع ہے جس كے متعلق ميرے علم ميں سلف سے كوئى عمل ثابت نہيں " انتہى
ديكھيں: مواھب الجليل ( 2 / 544 - 545 ).
قرآن مجيد كى تلاوت كا فوت شدگان كو ثواب ہديہ كرنے ميں تفصيلى بيان آپ سوال نمبر ( 46698 ) اور ( 70317 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں، ليكن اگر بالفرض اس كے جواز كا بھى كہا جائے تو يہ ثواب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے ہديہ كرنا جائز نہيں كيونكہ ايسا كرنے سے تو عمل كرنے والا شخص خود ہى ثواب سے محرود ہو گا اور اسے كوئى فائدہ نہيں.
واللہ اعلم .