جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

بچى كا سر مونڈنا

59869

تاریخ اشاعت : 01-06-2008

مشاہدات : 12269

سوال

سوال نمبر ( 14248 ) كے جواب مولانا صاحب اس نتيجہ پر كيسے پہنچے ہيں كہ بچى كا سر منڈانا سنت نہيں، كيا بچيوں كے بلاوں ميں بھى ان كے ليے گندگى نہيں ہے، اور كيا يہ اختلافى مسئلہ ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ترمذى رحمہ اللہ نے سمرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ گروى اور رہن ركھا ہوا ہے، اس كى جانب سے ساتويں روز ذبح كيا جائے، اور نام ركھا جائے، اور اس كا سر مونڈا جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1522 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ حديث پيدا ہونے والے بچے كا سر مونڈنے كے مستحب ہونے كى دليل ہے.

ليكن فقھاء كرام بچى كا سر مونڈنے كے متعلق اختلاف كرتے ہيں، چنانچہ مالكيہ اور شافعيہ بچے كى طرح بچى كا سر مونڈنے كے قائل ہيں، ليكن حنابلہ بچى كا سر مونڈنے كے قائل نہيں.

شافعى حضرات نے بچى كا سر مونڈنے كى دليل امام مالك اور امام بيھقى وغيرہ كى مرسل روايت سے لى ہے جو يہ ہے:

محمد بن على بن حسين بيان كرتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے حسن اور حسين، اور زينب اور ام كلثوم كے بالوں كا وزن كر كے اس كے برابر چاندى صدقہ كى "

اسے بيھقى نے على رضى اللہ تعالى عنہ سے مرفوع بھى روايت كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كو حسين كے بالوں كے برابر چاندى صدقہ كرنے كا حكم ديا "

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كى سند ميں ضعف ہے.

اور حنابلہ يہ دليل ديتے ہيں كہ: اصل ميں عورت كے بال مونڈنا ممنوع ہيں، اور پيدا ہونے والے بچے كا سر مونڈنے كا سنت ميں ثبوت ملتا ہے بچى كا نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بغير كسى ضرورت كے عورت كا سر كے بال منڈوانے كى كراہت كى روايت ميں كوئى اختلاف نہيں، ابو موسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مصيبت كے وقت چيخ و پكار كرنے اور سر مونڈنے والى عورت سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم برى ہيں "

متفق عليہ.

اور خلال نے اپنى سند كے ساتھ قتادہ عن عكرمہ سے روايت كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كو سر مونڈنے سے منع فرمايا "

اور حسن كہتے ہيں يہ مثلہ يعنى اللہ كى پيدا كردہ خلقت ميں تبديلى ہے.

اور اس ليے كہ پيدا ہونے والى بچى كا سر مونڈنے كى حديث صحيح نہيں تو معاملہ اپنى اصل پر ہى رہيگا، يعنى مونڈنے كى ممانعت.

مزيد ديكھيں: شرح الخرشى على مختصر خليل ( 3 / 48 ) اور المجموع ( 8 / 406 ) اور كشاف القناع ( 3 / 29 ).

اور درج ذيل حديث:

" بچہ كا عقيقہ ہے، تو اس كى جانب سے خون بہاؤ، اور اس سے گندگى دور كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5471 ).

اس حديث ميں گندگى دور كرنے كا حكم ہے جس كى تفسير ميں اختلاف ہے:

ايك قول يہ ہے كہ: اس سے مراد سر مونڈنا ہے.

اور ايك قول يہ ہے: اس سے مراد اس پر لگى ہوئى خون وغيرہ كى گندگى ہے، تو اس سے يہ علم ہوا كہ اسے غسل دينا مستحب ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" طبرانى كى ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى روايت ميں آيا ہے كہ:

" اس سے گندگى دور كى جائے، اور اس كا سر مونڈا جائے "

تو اس پر عطف ہے، تو گندگى تو سر مونڈنے سے بھى عام پر محمول كرنا اولى ہے، اس كى تائيد عمرو بن شعيب كى بعض روايت سے ہوتى ہے جس ميں ہے:

" اور اس سے اقذار يعنى گندگى دور كى جائے "

اسے ابو الشيخ نے روايت كيا ہے" انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 593 ).

بہر حال حديث بچے كا سر مونڈنے ميں نص ہے، اور حنابلہ كے مسلك ميں يہى راجح ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب