سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مسجد سے عاريتا كتابيں لينا

60329

تاریخ اشاعت : 16-07-2007

مشاہدات : 6053

سوال

كيا مساجد كى لائبريريوں ميں موجود كتابيں عاريتا لينا جائز ہيں، كيا انہيں استعمال كرنے والا ان ميں تصرف كر سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

وقف صدقہ جاريہ ميں شامل ہوتا ہے، جس كا وقت كرنے والے كو اجروثواب ملتا ہے، اور مومن كو اس كى قبر ميں بھى اس صدقہ جاريہ كا اجر و ثواب پہنچتا رہتا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مومن شخص كى موت كے بعد بھى اسے جن چيزوں كا اجروثواب پہنچتا رہتا ہے وہ يہيں: وہ علم جسے اس نے نشر كيا ہو، يا كسى كو تعليم دى ہو، اور اپنے پيچھے نيك و صالح اولاد چھوڑى ہو، اور قرآن وراثت ميں چھوڑا ہو، يا كوئى مسجد بنائى ہو، يا مسافر كے ليے كوئى سرائے اور گھر تعمير كرايا ہو، يا كوئى نہر كھدوائى ہو، يا اپنى زندگى ميں صحت و تندرستى كى حالت ميں اپنے مال ميں سے صدقہ كيا ہو، ان كا اجروثواب اسے موت كے بعد بھى پہنچتا رہتا ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 242 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب ( 77 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ان كتابوں كو عاريتا دينے اور لينے كے متعلق گزارش يہ ہے كہ اس ميں وقف كرنے والے كى شرط كو ديكھا جائيگا ( يعنى جس شخص نے يہ كتابيں خريد كر اللہ كى راہ ميں وقف كى ہيں اسے ديكھا جائيگا كہ اس نے كس ليے وقف كى ہيں ) اگر تو اس نے ان كتب سے استفادہ كرنے كے ليے عاريتا دينے كى اجازت دى ہے، كہ ان سے مستفيد ہونے كے بعد كتاب واپس كردى جائے يا پھر اس نے يہ شرط تو نہيں لگائى ليكن عرف عام ميں يہ عادت ہے كہ مسجد ميں وقف كردہ كتابيں عاريتا لى اور دى جاتى ہيں، تو ان دونوں حالتوں ميں كتابيں عاريتا دينے ميں كوئى حرج نہيں.

ان كتابوں كے ذمہ دار اور نگران كو چاہيے كہ وہ عاريتا لين دين كرنے كو درج كرے اور لينے والے كا نام اور ايڈريس اور تاريخ لينے اور واپس كرنے كى تاريخ كا بھى اندارج كرے تا كہ كتابيں ضائع نہ ہوں.

اور عاريتا كتابيں لينے والے كو بھى چاہيے كہ وہ ان كتابوں كى حفاظت كرے، كہ پھٹ نہ جائيں، اور نہ ہى اس پر كوئى عبارت لكھى جائے، اور واپسى كى تاريخ كا خيال ركھے تاكہ اس سے كسى اور كو بھى مستفيد ہونے كا موقع حاصل ہو سكے، تو اس طرح وقف كرنے والے كو اجروثواب زيادہ حاصل ہو.

ليكن اگر عاريتا نہ دينے كى شرط ركھى گئى ہو، يا پھر كوئى شرط نہ ہو اور نہ ہى عرف عام ميں عاريتا كتابيں دينے كى عادت ہو، تو پھر كسى كو بھى كتابيں عاريتا دينا جائز نہيں، جو بھى مستفيد ہونا چاہے وہ مسجد ميں پڑھ لے.

سوم:

اور كتابوں ميں تصرف كرنے كے متعلق يہ ہے كہ اس كے نگران كو چاہيے كہ عاريتا دينے يا نہ دينے اور دوسرى شروط ميں وہ وقف كرنے والے كى شروط پر عمل كرے، اور وہ كتابيں چھوٹے بچوں يا حفاظت نہ كرنے والوں كے ہاتھ كتاب نہ لگنے دے، كيونكہ يہ امانت كو ضائع كرنا ہے جس كى حفاظت كا اسے ذمہ ديا گيا ہے.

وقف كے مزيد احكام معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13720 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات